وزیراعظم عمران خان نے نمایاں کاروباری شخصیات سے ملاقات کے دوران نیب کی کارروائیوں کے متعلق ان کے خدشات کودور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیر اعظم نے کاروباری شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ جو تاجروں کی شکایات کا جائزہ لے گی۔رواں برس اگست میں وفاقی کابینہ نے کاروباری سرگرمیوں میں ضابطہ جاتی رکاوٹیں دور کرنے کے لئے نیب کے طریقہ کار میں بعض تبدیلیوں کا فیصلہ کیا تھا۔قبل ازیں اہم تاجر افراد کا وفد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے حکومتی اقدامات کے باعث کاروبار کے متاثر ہونے کی شکایت کر چکا ہے۔ آرمی چیف نے ان کی بات توجہ سے سنی اور تاجر حضرات سے کہا کہ وہ معیشت کی بحالی کے لئے حکومتی کوششوں کا ساتھ دیں۔ جمعرات کے روز چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی لاہور میں تاجروں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیب کے کاروبار دوست اقدامات سے آگاہ کیا۔ چیئرمین نیب نے نیب کے حوالے سے تاجروں کے خدشات کو بے بنیاد قرار دیا۔ دنیا بھر میں پاکستانی معیشت کے ڈھانچے کو حیرت سے دیکھنے والے اسے ناقابل بھروسہ تصور کرتے ہیں۔ ایک ملک جہاں ہر شہری کام کرنا چاہتا ہے۔ لوگ اپنی اور اپنی نسلوں کی حالت بدلنے کے لئے جاں توڑ محنت کرتے ہیں مگر ریاست کا خزانہ خالی اور امیر و غریب کے مابین خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ متوسط اور نچلے طبقات زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے بے دم ہوئے جا رہے ہیں لیکن ایسے خاندان بھی ہیں جو اربوں روپے کا کاروبار کرتے ہیں۔ بیش قیمت ملکی و غیر ملکی جائیدادوں کے مالک اورشان و شوکت سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں لیکن ریاست کو ٹیکس دینے پر تیار نہیں۔ اگر ٹیکس دیتے ہیں تو جعلی کھاتے بنا کر انتہائی کم۔ سابق حکمران خاندانوں اور ان کے قریبی لوگوں کے اثاثے دیکھیں اور ان کے گوشواروں پر نظر ڈالیں۔ کھلی غلط بیانی دکھائی دیتی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ مجرمانہ غفلت کے شکار سرکاری ادارے اگر کبھی کسی وجہ سے اپنا کام درست طریقے سے انجام دینا چاہیں تو ٹیکس چوری یا ٹیکس کی عدم ادائیگی پر فخر کرنے والے جمہوریت کو خطرات کا شکار بتانے لگتے ہیں۔ گویا معیشت کو اس وقت ٹھیک کہا جا سکتا ہے جب سرکاری خزانے کی بجائے خاندانی خزانے بھرنے کی اجازت ہو۔ پاکستان سے محبت رکھنے والے حلقے مدت سے اس بات کی کوشش میں رہے ہیں کہ قومی معیشت کو کالے دھن کے اثرات سے بچایا جائے۔ سب سے پہلا چیلنج معیشت کو دستاویزی بنانا تھا۔ میاں نواز شریف اوربے نظیر بھٹو اپنے پہلے دور حکومت میں کوشش کر بیٹھے۔ تاجروں نے مسلسل ہڑتالیں کر کے اور خود کو اپوزیشن جماعتوں کے سپرد کر کے معاشی ضرورتوں کو نظر انداز کیا۔ بات صرف تاجروں تک محدود نہیں ہر طبقے نے حتی المقدور ریاست کے وسائل کو جی بھر کر لوٹا۔ جب ریاست کے خزانے کی بات آتی ہے تو سب اپنی محرومیاں ‘ ناکامیاں اور ناعاقبت اندیشیوں کو ریاست کے حساب میں ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور تاجروں کے باہمی تعلقات نے وہ دن دکھایا کہ ملک کے امور کو چلانے کے لئے جس حقیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی آئی ایم ایف ‘ ایشیائی ترقیاتی بنک‘ اور عالمی بنک کے ترقیاتی پروگراموں سے حاصل کی جانے لگی۔ قرض کے پیسے کو ٹرانسپورٹ منصوبوں‘ بجلی کے پیداواری کارخانوں اور شاہراہوں پر خرچ کیا جاتا رہا۔ بے ضابطگیاں ہوئیں۔ کچھ بدعنوانی بھی ہوئی۔ گھر کے افراد گھر کے اخراجات کے لئے رقم نہیں دیں گے تو قرض سے کتنی دیر کام چلایا جا سکتا ہے۔ آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں پاکستان کے دشمن ہماری بدعنوانی اور ٹیکس چوری کے اثرات کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بنا کرکھڑا کر رہے ہیں۔ ٹیکس نہ دینے کا جرم یا معیشت کو دستاویزی نہ بنانے کی ضد تاجر کرتے رہے ہیں۔ حکومتوں نے ان کے سامنے سر بھی جھکایا لیکن آج یہ طے کرنے کا موقع آ گیا ہے کہ ذاتی مفادات کو ریاستی مفادات کے سامنے سرنگوں کر دیا جائے۔تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئے ایک برس سے زاید ہوا چاہتاہے۔ عمران خاں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد بدعنوانی کے خاتمہ اور معیشت کی بحالی کو اپنی ترجیحات قرار دیا۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ ادائیگیوں میں مشکل کا سامنا ہے۔ پیداواری عمل سست ہے۔ پاکستان کی مشرقی و مغربی سرحدوں پر دبائو ہے۔ کشمیر کا معاملہ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث خطے میں کشیدگی کا سبب بن چکا ہے۔ پاکستان مذہبی اور جذباتی طورپر عالم اسلام سے جڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب ہو یا ایران‘ سوڈان ہو یا افغانستان و ہندوستان۔ ساری دنیا کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ معاشی طور پر کمزور پاکستان نہ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر سکتا ہے نہ اہل کشمیر پر بھارت کے جابرانہ تسلط کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے۔ تاجر برادری معیشت کی بحالی کے لئے بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ملک میں نئے روزگار کی فراہمی ‘نئے گھروں کی تعمیر‘ ڈیمز کی تعمیر‘ سی پیک سے فائدہ اٹھانے اور چھوٹی صنعتوں اور کاروبار کے فروغ کے لئے تاجر برادری بہت مفید کردار ادا کر سکتی ہے۔ ماضی میں کسی حکومت کے خلاف تحریک میں تاجر برادری کا کردار کلیدی رہا ہے۔ شاید حکومت کے خلاف تحریک کی خبروں نے نیب کی کارروائی پر پریشان تاجروں کو مزید تشویش کا شکار کیا تو وہ آرمی چیف سے رہنمائی کے لئے پہنچ گئے۔ اس موقع پر آرمی چیف کا ردعمل بہت منطقی اور مناسب رہا۔ انہوں نے تاجر رہنمائوں پر واضح کیا ہے کہ وہ ملک میں انتشار پھیلانے والی کسی مہم سے الگ رہیں۔ اگرچہ اپوزیشن اس ملاقات کو حکومت کی بے اختیاری ثابت کرنے کے لئے پروپیگنڈہ کا حصہ بنا رہی ہے مگر سچ یہی ہے کہ تمام ادارے اور حکومت ملک کی معاشی تعمیر نو پر متفق ہیں۔ نیب کی جن کارروائیوں سے متعلق تاجر برادری کو شکایت ہے ان سے وزیر اعظم کی قائم کمیٹی کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔