جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس آج بدھ کے روز پلان کی گئی ہے، مولانا فضل الرحمن جو حالیہ عام انتخابات میں شکست کھانے کے بعد بالکل فارغ ہیں، سیاسی جوڑ توڑ میں مگن ہیں، ان کا اصل مقصد عمران خان کی دوماہ سے کچھ زائد عمر کی حکومت کو چلتا کرنا ہے۔ مولانا اتنی جلدی میں ہیں کہ سالہا سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد پارلیمنٹ سے باہر ہونا انھیں ہضم نہیں ہو رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے دوماہ میں سوائے اپنی بے تدبیریوں کے جھنڈے گاڑنے کے، کچھ نہیں کیا۔ ان کے مطابق مہنگائی تین سو فیصد بڑھ گئی اور وہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی اس تردید کو ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان میں کسی اسرائیلی طیارے نے لینڈ نہیں کیا۔ مولانا فضل الرحمن کی اس بات سے قطعاً اختلاف بھی نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت کی کارکردگی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کے مترادف ہے اور ایسی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیںجن کی واحد قدر مشترک تما م اپوزیشن کو کا لے برُش سے رنگنا ہے۔ عمران خان یقین کی حد تک سمجھتے ہیں کہ زرداری اور شریف برادران کی جگہ جیل ہے۔ پارلیمنٹ ابھی اپنا اصل کام نہیں کر رہی اور کر بھی کیسے کر سکتی ہے، جب کسی بات پر کم از کم اتفاق رائے بھی نہ ہو۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے معاملے میں موجودہ حکومت جو ہر کسی کا احتساب کرنا چاہتی ہے اپنے احتساب کیلئے اپوزیشن لیڈر کو اس کمیٹی کی سربراہی دینے سے صاف انکاری ہے، گویا کہ حکومتی معاملات اور لین دین کی نگرانی بھی وہ خود کرے گی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے بجٹ سیشن کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے پر بعض اپوزیشن ارکان کا اسمبلی میں داخلہ بند کرنے کی بنا پر اپوزیشن نے اجلاس کا مسلسل بائیکاٹ کیے رکھا۔ اس میں کچھ صداقت نظر آتی ہے کہ چودھری پرویز الہٰی جو پہلے بھی سپیکر رہے ہیں۔ سپیکر کے منصب کے تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپوزیشن کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے پہلے جلد ازجلد لوکل باڈیز الیکشن کرانے کا عندیہ دیا تھا لیکن اب اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ اگرچہ بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے صدر میرحاصل بزنجو کے اس تازہ بیان سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں ایک خاموش مارشل لاء لگا ہوا ہے جو ماضی کے مارشل لاء کے تینوں ادوار سے بھی سخت ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت کے نام پر ہی جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا نیب عدالت میں تازہ بیان کہ انھیں قید تنہائی میں رکھاگیا ہے ان کے برخوردار حمزہ شہباز سمیت قریبی عزیزوں سے بھی نہیں ملنے دیا جا رہا۔ نیز وہ خون کے سرطان کے موذی مرض سے شفایاب تو ہو چکے ہیں لیکن انھیں بلڈ ٹیسٹ کروانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ اس صورتحال کے باوجود فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ مو جودہ حکومت جائز نہیں ہے لہٰذا اسے تحریک چلا کر فارغ کردیا جائے کہاں تک درست اور جائز ہے؟۔ اگر بادل نخواستہ ایسا ہوا تو حاصل بزنجو کے مطابق یہ ملک میں خاموش مارشل لاء کے بجائے علانیہ مارشل لاء کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ شاید اسی بنا پر میاں نواز شریف نے مولانا کو کورا سا جواب دیا ہے کہ وہ برادر خورد کے بغیر مجوزہ اے پی سی میں شرکت نہیں کرینگے، انھوں نے اے پی سی میںخود شرکت کے بجائے وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ اس قسم کا عندیہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے دیا ہے کہ وہ بھی وفد بھیجیں گے۔ آصف زرداری کہہ چکے ہیں کہ انھیں یہ حکومت چلتی نظر نہیں آتی لیکن اس کے باوجود وہ سڑکوں پر نکلنے کو تیار نہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیںکہ ان کے گردگھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ انھیں کرپشن کے مقدمات میں پھنسا کر گرفتار کر لیا جائے۔ زرداری صاحب اور شہباز شریف کی پیر کے روز پارلیمنٹ میں اکٹھے آمد اور مثبت باڈی لیگوئج کو سیاسی مبصرین نے خاص طور پر نوٹ کیا۔ یقیناً دونوں جماعتوں کے درمیان برف پگھلنے کے واضح آثار نظر آ رہے ہیں۔ سیاست کے مدوجزر بھی عجیب ہیں، 2015ء میں جب نواز شریف پر سخت وقت آیا تو میاںصاحب آصف زرداری سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔ اس وقت زرداری صاحب آگے آگے اور میاںصاحب پیچھے پیچھے تھے۔ اب معاملات اس کے برعکس ہیں اب بظاہر نواز شریف آگے آگے اور زرداری صاحب پیچھے پیچھے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ موقع حکومت گرانے کا نہیں ہے اور ویسے بھی اپوزیشن کے لیے یہ مشکل ہو گا۔ معاملات 2014ء کی طرح نہیں ہیں جب تیسرا امپائر متحرک تھا لیکن وہ بھی انگلی اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس وقت تو عمران خان، فوجی قیادت، عدالت عظمیٰ اور نیب سبھی نظام کو چلانے کے بارے میں ایک صفحے پر ہیں۔ اس پس منظر میں کون سی تحریک چلائی جا سکتی ہے اور اگر ایسا کیا بھی گیا تو اپوزیشن کو کامیابی حا صل ہو بھی جا تی ہے تواس کا فائدہ میاں صاحب یا آصف زرداری کو نہیں پہنچ سکتا۔ نواز شریف تو اپنی شریک حیات کے انتقال کے بعد سے اب تک بجھے بجھے سے ہیں اور سیاسی بیانات دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ اصولی اور قانونی طور پر تو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ہیں لیکن عملی طور پر نواز شریف کا طوطی بولتا ہے اور بطور رہبر فیصلے کرنے کا انھیں ہی اختیار ہے اور عملاً ’ویٹوپاور‘ بھی انہی کے پاس ہے۔ لہٰذا پارٹی مشاورت کے نتیجے میںہی انھوں نے مسلم لیگ (ن) کی مجوزہ اے پی سی میں شرکت کو ڈاؤن گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سندھ اسمبلی کے سابق سپیکر اور پیپلزپارٹی کے رہنما نثار کھوڑو نے بھی یہ الزام داغ دیا ہے کہ میاں صاحب این آر او کے متلاشی ہیں، اسی لئے وہ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔ یقیناً میاں صاحب اس وقت ٹھنڈی کر کے کھا رہے اور ان کی شعلہ نوا صاحبزادی مریم صفدر بھی مہر بلب ہیں۔ غالباً میاں صاحب کو اس بات کا پوری طرح ادراک ہے کہ یہ وقت محاذ آرائی کو تقویت دینے کیلئے مناسب نہیں۔ یقینا فضل الرحمن کے اعتراضات اور حکومت کی اپنی ابوالعجبیوںکے باوجود موجودہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن اس کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کو بھی اپنے رویئے میں تبدیلی لانا ہو گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا کہ ہمارا نیب کے معاملات سے کوئی تعلق نہیںکوئی ماننے کو تیار نہیں بالخصوص جب وزیراعظم عمران خان سمیت حکومتی وزراء ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہوں کہ ان سب کو جیل بھیج کر دم لیں گے، اگر واقعی ملک میں ادارے آزاد اور خود مختار ہیں تو اس قسم کے بیانات سے اداروں کو متاثر کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے لیکن حاصل کچھ نہیں ہو گا۔