ہوسکتا ہے، اسے چھوٹی سی بات سمجھا جائے، مگر میں اسے قومی کردار کا المیہ سمجھتا ہوں۔ یہ جو پنجاب کے تین شہروں میں ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے زرتلافی واپس لیا جارہا ہے، یہ ہمارے ایک پرانے مرض کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ظاہری طور پر یہ مرض صرف اتنا ہے کہ جانے والی حکومت نے جو احکامات کئے ہوں، وہ اچھے بھی ہوں تو ان کی مذمت کرنا ضروری ہے۔ وجہ یہ ہوا کرتی ہے مبادا اس کا کریڈٹ جانے والوں کے کھاتے میں چلا جائے۔ نتیجہ مگر اس کا یہ نکلتا ہے کہ اس قوم نے جو کچھ اچھا بھی حاصل کیا ہوتا ہے، وہ بھی غارت جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال گزشتہ حکومت کی دیا کرتا ہوں۔ پرویزالٰہی میں بہت خرابیاں ہوں گی مگر انہوں نے بہت سے کام ایسے کئے تھے جو ہر لحاظ سے قابل تعریف تھے۔ ان میں ایک 1122 کا منصوبہ تھا جس طرح اس کا تصور تھا اور جس طرح اس پر عملدرآمد ہوا اس میں فائربریگیڈ اور ایمبولینس دونوں کے تصورات کو یکجا کردیا گیا تھا۔ جب یہ خیال آیا تو معلوم ہوا کہ اس طرح کی گاڑی خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ چنانچہ مقامی طور پر اس پر کام ہوا اور نسبتاً کم قیمت میں ایک ایسی گاڑی تیار کرلی گئی۔ اس ادارے کو اس طرح منظم کیا گیا کہ کسی ہنگامی صورت حال میں 11 منٹ کے اندر شہر کے کسی بھی حصے میں پہنچ جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے میں ان دنوں کراچی میں تھا۔ لاہور بلوایا گیا، ایک بریفنگ کے دوران جب اس منصوبے کا علم ہوا تو کراچی پہنچ کر اس کا علم لہراتا رہا۔

جب شہبازشریف آئے تو انہوں نے پرویزالٰہی کے دوسرے منصوبوں کی طرح اسے بھی زیادہ اہمیت نہ دی۔ اس کے علاوہ مثلاً ٹریفک وارڈن کا تصور یا وزیرآباد میں کارڈیک ہسپتال کا قیام یا سیالکوٹ کے راستے لاہور سے گجرات تک موٹروے کا منصوبہ۔ یہ سب تعطل کا شکار ہوئے۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ 1122 کا منصوبہ آہستہ آہستہ دوبار جان پکڑ گیا۔ تاہم اس میں اس سے کہیں زیادہ امکانات موجود تھے۔ اس منصوبے میں جو سستی آئی یا جو کمی پیدا ہوئی وہ ہمارے ایسے ہی مرض کا نتیجہ ہے۔

اب بھی مسئلہ یہ ہے کہ میٹرو ٹرین، اورنج ٹرین، ملتان میٹرو یا پنڈی اسلام آباد میٹرو کے منصوبوں کے خلاف تحریک انصاف شور مچاتی رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا ہی منصوبہ اس نے پشاور میں شروع کر رکھا ہے جو نامکمل بھی ہے اور موخر بھی کردیا گیا ہے۔ مجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ پنجاب کے منصوبے بھی گڑ بڑ کردیئے جائیں گے۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کے ایسے منصوبے ہوتے ہیں۔ مقامی حکومت اسے زرتلافی دیتی ہے تاکہ شہری کم قیمت پر سفر کرسکیں۔ پنجاب کے ان منصوبوں نے غریب طبقے کے لیے سفری سہولتیں پیدا کی تھیں۔ ماحولیات کے تناظر میں بھی یہ بڑے کامیاب منصوبے تھے۔ خوشی ہوتی تھی کہ اب پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہونے لگا ہے جہاں کے شہریوں کو سفر میں آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ میں بار بار رونا روتا تھا کہ کراچی بہت پیچھے رہ گیا ہے جبکہ وہاں کے شہریوں کے ہیجان کی ایک بڑی وجہ وہاں کی ٹریفک ہے جو بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ جب میں کراچی گیا تھا تو وہاں ٹرام بھی چلا کرتی تھی، سرکلر ریلوے بھی تھی ٹرام کو تو بند ہونا تھا مگر سرکلر ریلوے کو ہم نے جانے کس چکر میں بند کیا ہے۔ اسے آج تک دوبارہ شروع نہیں کر پا رہے کہ راستے میں تجاوزات کھڑی ہوگئی ہیں۔ وہاں ماس ٹرانزٹ کے کئی منصوبے بنے مگر ان پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ اب ایک منصوبہ زیرتعمیر ہے مگر وہاں کی ضروریات کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتا۔ پھر بھی کام ہورہا ہے۔ سیاست کے دھکے کھاتا ہوا آگے بڑھتا جارہا ہے۔ ایک نہ ایک دن کراچی کو بھی اس حوالے سے اس کا حق ملے گا۔ لاہور کے حوالے سے تو میں کہا کرتا ہوں کہ اورنج لائن کے بعد جو آئندہ منصوبہ بنے گا کیا خبر وہ زیرزمین ہو۔ ہم ترقی کرتے رہیں گے تو ہماری حکومت عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کی پوزیشن میں آتی جائے گی۔ شہر اسی طرح ترقی کرتے ہیں۔ ہم نے اسے تخت لاہور کی کہانی بنا ڈالا ہے۔ اب اگر نئی حکومت شہریوں کے لیے یہ سہولت مہنگی کرنا چاہتی ہے تو یہ کوئی اچھا وژن نہیں ہے۔ وہ شہری سہولتوں کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اس کا سیاسی ردعمل جو ہوگا، وہ الگ ہے، مگر مجھے تشویش یہ ہے کہ ہمارا یہ پرانا مرض کیا ختم ہونے کا نام نہیں لے گا۔ پنجاب اتنا کنگلا صوبہ نہیں ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو سفر کی سستی اور اچھی سہولت نہ دے سکے۔ ہم ترقی کر رہے تھے، اس کے اثرات عوام کو پہنچنے چاہئیں۔ زرتلافی کسی کی جیب سے نہیں جا رہا تھا، یہ عوام کو فائدہ پہنچا رہا تھا۔ دیکھئے، اس وقت حکومت کو بہت چیلنجوں کا سامنا ہے۔ کھاد مہنگی، آٹا مہنگا، بجلی اور گیس مہنگی، بحث یہ نہیں کہ یہ سب ناگزیر تھا، بحث یہ ہے کہ اس کا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے۔ ان سہولتوں کو کاٹ کر آپ معیشت کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو یہ پیچھے کی طرف لوٹنے کے مترادف ہوگا۔ ہم جہاں پہنچ چکے ہیں۔ اس سے آگے بڑھیے۔ ملک بھر میں آمدورفت کا جو انفراسٹرکچر آگے بڑھ رہا ہے، اسے مزید آگے لے کر جائیے۔ یہ نہیں کہ اسے روک کر مکان بنانے لگ جائیے۔ وہ بھی اچھا خیال ہے، مگر یہ نہیں کہ کوئی اچھا کام چھوڑ کر کوئی دوسرا اچھا کام شروع کردیا جائے۔ اس کا ملک کے معاملات، جسد سیاست اور سماجی ڈھانچے کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ ہر آنے والا نئے نئے تصورات لے کر آتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مارٹ گیج سے مکانات بنانا ترقی یافتہ ممالک کی نشانی رہی ہے۔ یہ مگر اس وقت بنتے ہیں جب نئی نسل اپنا مستقبل محفوظ سمجھتی ہے۔ جس کو دو وقت کی روٹی نہ ملتی ہو، وہ اس طرف نہیں جاتا۔ کوئی دس پندرہ سال پہلے میں نے ایک سروے یا تجزیہ پڑھا تھا کہ انڈونیشیا میں لوگ میکڈونلڈ کھانے دس دس میل دور جاتے ہیں۔ پیسہ آتا ہے تو آدمی اسے خرچ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف غالباً تھائی لینڈ میں مرسڈیز سب سے زیادہ بکتی تھیں۔ یہ سب پیسہ آنے کی نشانیاں ہیں۔ اس کے درجے اور مرحلے ہیں۔ جب آپ کے پاس بہت سہولت ہوتی ہے جسے امریکہ میں ہیں تو لوگ پہلے گھر بناتے ہیں۔ انڈونیشیا، تھائی لینڈ میں اس وقت ایسا نہیں ہوتا تھا۔ زندگی بھر کے لیے یا ایک طویل عرصے کے لیے خود کو رہن رکھتے ہیں۔ وہاں تو پڑھنے کے لیے بھی بینک قرضہ دیتے ہیں۔ طلبہ بھی لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے۔ یہ ادا بھی ہو جائے گا۔ نظام ہی ایسا مستحکم ہے۔ پڑھنے کے بعد نوکری بھی مل جاتی ہے۔ ہر ملک کے اپنے اپنے حالات ہیں، ترقی کے مراحل ہیں، اب اگر ہمیں دوچار سہولتیں ملی ہیں،میکڈونلڈ کھانے کی نہیں، ہم پر یہ وقت بہت پہلے گزر چکا ہے، مرسیڈیز خریدنے کے لیے بھی نہیں ہیں، ایسے میں سرکار کی طرف سے ملنے والی یہ سہولتیں کوئی عیاشی نہیں ضرورت ہیں۔ ایسے نہیں کہ ادھر ادھر کے خواب اکٹھے کر کے ہوائی قلعے بنانے بیٹھ جائیں۔

آگے بڑھنے کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کو مہنگا ہوتے دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ دل چاہتا ہے پاکستان میں موجود صحت کے مختلف ماڈل کا تجزیہ کروں مگر اس میں ڈر ہے کہ اس خالص علمی مطالعے کو سیاست کی نظر کردیا جائے گا کیونکہ مجھے Suit اور شوکت خانم جیسے ماڈل کا تقابل بھی کرنا ہوگا۔

دیکھئے، بعض تصورات کے ساتھ ہم برسوں جئے ہیں۔ انگریز نے پینشن کا تصور دیا تھا جو آج تک جانے کتنے خاندانوں کا سہارا ہے۔ ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ شوکت عزیز کو امریکہ کاماڈل پسند آ گیا۔ سوچا پنشن پر بہت خرچ آتا ہے، کیوں نہ ہم تنخواہوں کو بڑھا کریہ سہولت ختم کردیں۔ بعض منصوبے شروع بھی کئے گئے۔ مثال کے طور پر اساتذہ کو اس طرح کا پیکیج دینے کی ایک ایسی سکیم، مگر شاید انہیں اندازہ نہ تھا کہ جس قوم کو غلامی میں تحفظ کی ضمانت ملی تھی اس کے خاتمے کا کیا مطلب ہوگا۔ سو، صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں، جتنی سہولتیں اور آسانیاںبانٹ سکتے ہو یا ریاست بانٹ چکی ہے، انہیں واپس نہ لیجئے۔ اس نے معاشرے کے بہت سے زخم ڈھانپ رکھے ہیں۔ ان زخموں کو تازہ نہ کیجئے۔ زخم دوبارہ ہرے ہو جائیں گے۔