Common frontend top

صدر چارٹر آف گورننس پر اجلاس بلائیں : نامزد چیف جسٹس

جمعه 18 جنوری 2019ء





اسلام آباد(خبر نگار)نامزد چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریاستی اداروں کے درمیان بد اعتمادی ختم کرانے ،آئین وقانون کی حکمرانی قائم کرنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے صدر مملکت کی سربراہی میں تمام ریاستی اداروں پر مشتمل سمٹ طلب کرنے کی تجویز دیدی ۔ نامزدچیف جسٹس نے کہا آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے تمام ریاستی اداروں کو آپس میں بیٹھ کر ریاستی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے چارٹر آف گورننس پر پہنچنا چاہیے تاکہ ماضی کی غلطیوں کو مندمل کرکے بہتر مستقبل کیلئے مفاہمت اور باہمی اعتماد پر مبنی عملی پالیسی وضع کی جاسکے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا صدر مملکت سمٹ طلب کریں جس میں چوٹی کی پارلیمانی،عدالتی اور انتظامی قیادت بشمول فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں آپس میں بیٹھ کر ریاستی امور چلانے کے لئے ایک عملی پالیسی فریم ورک بنائیں اور بداعتمادی کو ختم کرکے مفاہمت پر مبنی لائحہ عمل طے کریں جس کا مقصد آئین وقانون کی حکمرانی قائم کرنا اور جمہوریت کو مضبوط کرنا ہو۔انہوں نے کہا میں از خود نوٹس کا اختیار بہت کم استعمال کرونگا اور اگر ضروری ہوا تو فل کورٹ میٹنگ یا عدالتی آرڈر کے ذریعے ازخود نوٹس کے اختیار کی حدود وقیود کا تعین کریں گے ، ازخود نوٹس کے مقدمات کے فیصلوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کے لئے سپریم کورٹ کے قواعد میں تبدیلی کریں گے ۔سوموٹو کا اختیاربڑے قومی مفاد کے معاملات اور صرف وہاں استعمال کیا جائے گا جہاں کوئی دوسرا حل نہیں ہوگا۔انھوں نے کہا عدالتی نظام کو ازسر نو ترتیب دینے اور موثر بنانے کا وقت آگیا ہے جس کے لئے بڑی،سخت اور چند بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی ۔نامزد چیف جسٹس نے ملک میں ایک عدالتی نظام قائم کرنے اور تمام خصوصی عدالتوں کو ختم کرنے کی بھی تجویز دی اور کہا کہ کرپشن،منشیات اور بینکنگ تنازعات کے فیصلوں کے لئے ضلعی عدلیہ میں ہی جج لگائے جائیں۔انھوں نے کہا انصاف کی جلد فراہمی کے لئے عدالتی کارروائی چار عدالتو ں سے کم کرکے تین کردیا جائے گا اور اب ہر سول اور کریمنل کیس کے ٹرائل کے بعد اپیل براہ راست ہائی کورٹ میں ہوگی، ہائی کورٹ میں کیس کے حقائق پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا جبکہ سپریم کورٹ صرف قانونی نکتے پر اپیل سنے گی،پنجاب کے طرز پر پورے ملک میں ہائی کورٹس کی اجازت اور تعاون سے ماڈل عدالتیں قائم کی جائیں گی جہاں ٹرائل دنوں میں کیا جائے گا جبکہ فوجداری کے علاوہ دیوانی اور عائلی مقدمات کے لئے بھی ماڈل عدالتیں قائم کی جائیں گی اورمقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے بچنے اور التوا کی حوصلہ شکنی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا اگر مقننہ فوجی عدالتوں کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو پھر فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق بھی دیا جائے تاکہ جلدی فیصلے کے لئے کوئی انصاف سے محروم نہ ہو۔نامزد چیف جسٹس نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی تعریف کی اور کہا ہم دونوں ایک ساتھ جڑے ہوئے بچوں کی طرح ہیں جو آج الگ ہو جائیں گے ،جسٹس ثاقب نثار نے بہت مشکل حالات میں عدالت چلائی اور سیاسی، سماجی ، معاشرتی اور آئینی سمیت کئی مشکلات کا سامنا کیا، ان کی انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات یاد رکھی جائیں گی۔ میں بھی ان کی طرح ملک کا قرضہ اتارنا چاہتا ہوں اور مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ،التوا،جعلی گواہوں ،غیر ضروری مقدمات اور کیسز میں غلط بیانیوں کے آگے ڈیم بناؤں گا۔انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں انیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں لیکن 3 ہزار ججز 19 لاکھ مقدمات نہیں نمٹا سکتے ،بطور چیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل دورکرنے کی کوشش کروں گا، ماتحت عدلیہ میں برسوں سے زیرالتوا مقدمات کے جلد تصفیہ کی کوشش کی جائے گی، غیر ضروری التوا کو روکنے کے لئے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا،عرصہ دراز سے زیر التوا مقدمات کا قرض اتاروں گا۔انہوں نے کہا ہائیکورٹ کو اپنے اختیارات حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہئیں جبکہ فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے ، ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے ، کوشش کریں گے سول عدالتوں میں جلد فیصلے ہوں۔این این آئی اورصباح نیوز کے مطابق انہوں نے کہا جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ پچھلے 20 سال سے ہوں ، آج الگ ہو جائیں گے ، کسی سرجری کے ساتھ نہیں ، آئین کے تحت الگ ہوں گے ۔ملکی ترقی کیلئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے ، جمہوری استحکام کے لیے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے ،ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی؟، عدلیہ نے کہاں دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کی۔لاپتہ افراد کا معاملہ سنگین ہے ، میری رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا ہے ، میں آخری دم تک لڑوں گا، مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے ترقیاتی فنڈز دینا یا صرف ٹرانسفر پوسٹنگ کرنا نہیں، صدر پاکستان کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی ضرورت ہے ۔ فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے 17 میں سے 16 ججز نے شرکت کی،جسٹس منصور علی خان ریفرنس میں شریک نہ ہوئے ۔ 

 

 



آپ کیلئے تجویز کردہ خبریں










اہم خبریں