پرسوں (6 اگست کو ) جب مَیں نے ، الیکٹرانک میڈیا پر ، اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ’’ پاکستان تحریک انصاف‘‘ کی پارلیمانی پارٹی کو اپنے چیئرمین عمران خان کو ، وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کرنے کا جوش و خروش دیکھا اور سُنا تو مجھے 7 مئی 2013ء کو ( 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے ) 4 دِن پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا ، جب عمران خان لاہور میں ’’پاکستان تحریکِ انصاف ‘‘ کی جلسہ گاہ کے سٹیج پر چڑھتے ہُوئے 15 فٹ کی بلندی سے گر کر سنبھل گئے تھے لیکن، اندرون اور بیرون پاکستان اُن کے چاہنے والوں کے دِل ، اپنے ہیرو ؔکے گرنے سے سنبھلنے تک دھڑکتے رہے تھے ۔

الیکٹرانک میڈیا پر خبروں کے مطابق صدر آصف علی ، نگران وزیراعظم جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو، مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف، مسلم لیگ پنجاب کے صدر ، میاں شہباز شریف اور کئی دوسرے سیاستدانوں کی طرف سے عمران خان کی صحت یابی کے لئے دُعائیہ بیانات ٹیلی کاسٹ کئے جا رہے تھے ۔ اِس پر 9 مئی 2013ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’ عمران خان تَینوں ربّ دِیاں رکھّاں!‘‘۔ ڈاکٹر صاحبان نے زخمی عمران خان کے سر پر 111 ٹانکے لگائے تھے۔ شوکت خانم میموریل ہسپتال نے انہیں بہت جلد فارغ کردِیا تھا۔

مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا تھا کہ ’’ عمران خان تو بڑے حوصلے سے گر کر سنبھل گئے لیکن عام طور پر سیاسی لوگ اقتدار کے اونچے اور وسیع و عریض سٹیج پر چڑھ کر خُود نہیں اُترتے، انہیں اُتارا جاتا ہے لیکن، اگر عوام یا مقتدر قوتوں نے عمران خان کے دائیں ہاتھ پر ، وزارتِ عظمیٰ کی لکیر کھینچ دِی تو وہ اقتدار کے اونچے سٹیج پر بھی براجمان ہوسکتے ہیں ، فی الحال شگون نیک ہے کہ ، عمران خان کی صحت یابی کے لئے نہ صِرف اُن کے مدّاح بلکہ سیاسی مخالفین بھی دُعائیں مانگ رہے ہیں ۔ عمران خان ! تینوں ربّ دِیاں رکھّاں!‘‘ ۔

معزز قارئین!۔ 6 اگست2018ء کو حالات بہت مختلف تھے ۔ الیکٹرانک میڈیا پر ، ایک طرف اسلام آباد کے ہوٹل میں ’’پاکستان تحریکِ انصاف ‘‘کی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے عمران خان کو وزیراعظم نامزد کرنے پر، نہ صِرف ہوٹل بلکہ اندرون اور بیرون پاکستان ’’ عمران خان ! تینوں ربّ دِیاں رکھّاں‘‘ کی گونج سُنائی دے رہی تھی لیکن، دوسری طرف جولائی 2018ء کی شکست خوردہ سیاسی پارٹیاں ، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور آصف زرداری صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کا ہر چھوٹا بڑا ، عمران خان کے خلاف زبان درازی کر رہا تھا۔

حیرت ہے کہ میاں شہباز شریف ( زرداری صاحب ) کی پارٹی کی حمایت سے عمران خان کے مقابلہ میں وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بن بیٹھے ہیں جو ،عام جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ ’’ اگر مَیں نے ، صدر زرداری سے لوٹی ہُوئی قومی دولت وصول کرنے کے لئے اُنہیں پاکستان کے ہر شہر کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو، عوام میرا نام بدل دیں! ‘‘ لیکن ، عوام کو وقت ہی نہیں مِلا؟۔ وزیراعظم نامزد ہو کر چیئرمین عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ اگر آپ نے تبدیلی کے وعدے / اعلان پر، عوام کے لئے کچھ نہ کِیا تو، پاکستان تحریک انصاف کا بھی حشر ( فضل اُلرحمن صاحب کی ) جمعیت عُلماء اسلام اور ( اسفند یار ولی صاحب کی ) عوامی نیشنل پارٹی کا سا ہوگا! ‘‘۔ معزز قارئین!۔ دراصل یہ دونوں پارٹیاں کبھی بھی قومی پارٹیوں کی شکل اختیار نہیں کر سکیں، کیونکہ اِن کے قائدین کے عزائم محدود تھے / ہیں۔ اِن حضرات کا کردار (کسی فلم کے ہیروؔ کے دوست کا سا رہا ہے ) ۔اگر یہ دونوں قائدین قومی سطح کے قائدین بن سکتے تو،  11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد ،(اُن کے اپنے صوبہ) خیبر پختونخوا میں ’’پاکستان تحریکِ انصاف‘‘ کی حکومت کیسے بن سکتی تھی؟ ۔ 

کپتان عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’’ عوام نے 1970ء کے بعد دوسری مرتبہ جولائی 2018ء کے انتخابات "Two Party System" ( دو جماعتی نظام) کو شکست دے کر ، تبدیلی کی علمبردار تیسری جماعت ( پاکستان تحریکِ انصاف) کو ووٹ دئیے ہیں‘‘۔ عمران خان صاحب ! 1970ء میں ’’مغربی پاکستان ‘‘ (موجودہ پاکستان) کے  بھولے بھالے عوام کو ، ’’دو جماعتی یا تین جماعتی نظام جمہوریت ‘‘ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی (نہ ہے ) وہ تو بھٹو صاحب کی خوبصورتی اور غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کے وعدے پر ، اُن پر فدا ہوگئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ جنابِ بھٹو ، اُن کی بیٹی وزیراعظم بے نظیر بھٹو ، اور داماد صدر آصف علی زرداری نے غریبوں کے لئے کچھ بھی نہیں کِیا ۔ شاید غریبوں کی بددعُائوں ہی سے ، جنابِ بھٹو ، بے نظیر بھٹو اور اُن کے دونوں بھائی میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو غیر فطری موت سے ہمکنار ہُوئے؟۔ 

معزز قارئین!۔ 5 اگست کو ایک نجی نیوز چینل کے مطابق، پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ  ’’چیئرمین عمران خان نے ، وزارتِ عظمیٰ کی تقریب ِ حلف برداری میں 1992ء کا "World Cup" جیتنے والی فاتح قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ، جناب شاہد سعید، جناب عامر سہیل ، جناب عاقب جاوید، جناب اعجاز احمد ، جناب انضمام اُلحق ، جناب واحد گابا ، جناب جاوید میاں داد، جناب معین خان ، جناب مشتاق احمد ، جناب رمیز راجا، جناب سلیم ملک ، جناب وسیم اکرم، جناب وسیم حیدر اور جناب زاہد فضل کو مدعو کرنے کا فیصلہ کِیا ہے! ‘‘۔ اچھا فیصلہ ہے ۔جب فاتح قومی کرکٹ ٹیم کے ارکان اپنے کپتان کو ، وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھاتے دیکھیں گے تو کتنے خُوش ہوں گے ؟۔ 

1992ء میں جب ، پاکستان کی فاتح قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان نے "World Cup"وصول کِیا ہوگا تو وہ، یقیناً خود کو پاکستان کا خوش قِسمت ترین شخص سمجھتے ہوں گے؟۔ قوم کے ہیرو تو وہ بن ہی گئے تھے۔معزز قارئین!۔ (محفل میں شراب پلانے والے ) ’’ساقی ‘‘کو انگریزی میں "Cup-Bearer" کہتے ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم میں ۔ قائدِ قوم ؔکو ’’ساقی‘‘ کہہ کر مخاطب کِیا اور کہا کہ  …

نشہ پلا کے ، گرانا تو ، سب کو آتا ہے!

مزا تو جب ہے ، کہ گرِتوں کو ، تھام لے ساقی!

…O…

مفسر کلام اقبالؒ ۔ مولانا غلام رسول مہر نے اِن دو شعروں کی تفسیر یوں کی ہے کہ ’’ اے مسلمانوں کے قائد!۔ قوم کو طرح طرح کے فریب دے کر ، اُس کی تذلیل کرنا سب ( سیاستدانوں) کو آتا ہے لیکن ترا کمال تو ہم اُس وقت مانیں گے جب  تو مسلمانوں کو اللہ اور رسول ؐکے سیدھے راستے پر لے جاتے ہُوئے اُنہیں پستی کے گڑھے سے نکال کر ترقی کے آسمان پر پہنچا دے !‘‘۔ عمران خان سے پہلے صدر زرداری اور اُن کے نامزد دو وزرائے اعظم ، پھر وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عوام ، سے جو کچھ کِیا اُن کی تلافی بھی وزیراعظم عمران خان کو کرنا ہوگی۔

معزز قارئین!۔ 6 اگست کو عمران خان بنی گالہ سے ہوٹل تک ، اپنے پروٹوکول کے لئے سرکاری گاڑیوں کے قافلے کی سکیورٹی پر بہت برہم ہُوئے اُنہوں نے "Rangers" اور "F.C" کی اضافی گاڑیاں بھی واپس بھجوا دِی تھیں۔ بظاہر یہ روّیہ عوامی ہے لیکن، پاکستان میں تو ، برطانیہ کے سے حالات نہیں ہیں کہ ’’ وزیراعظم برطانیہ اور دوسرے وزراء بغیر سکیورٹی کے جہاں چاہیں گھومتے پھریں ۔ ٹرین پر یا بس پر سفر کریں یا خود گاڑی ڈرائیو کر کے ؟‘‘۔ عمران خان کو اُن کی اپنی پارٹی نے تو ، وزیراعظم نامزد کردِیا ہے ۔ چند روز تک وہ، قومی اسمبلی سے قائد ِ ایوان بھی منتخب ہ کر ، وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھا لیں گے۔ پھر وہ ، پاکستان کے عوام ( خاص طور پر ) اُن کے چاہنے والوں کی جان ؔبن جائیں گے۔ لہٰذا اُن کی اور اُن کے مختصر قافلے کی سکیورٹی تو، بے حد ضروری ہے ۔ اب تو، مَیں یہی کہوں گا کہ ’’ عمران خان تینوں ربّ دِیاں رکھّاں لیکن۔ ہوشیار!‘‘ ۔ اُستاد شاعر قدرؔ  لکھنوی نے خُود کلامی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ…

اے قدرؔ ! راہ عشق ہے ، آگے بڑھے نہ جائو!

کھٹکا ہے ہوشیار! خبردار، دیکھ کر!