Common frontend top

مقتولین سپردخاک،سی ٹی ڈی اہلکاروں پر مقدمہ درج: ملک بھر میں فضا سوگوار،پنجاب بار کا آج ہڑتال کا اعلان

پیر 21 جنوری 2019ء





لاہور(سپیشل رپو رٹر،جنرل رپورٹر ، مانیٹرنگ ڈیسک ) ساہیوال میں مبینہ مقابلے میں جاں بحق ہونے والے خلیل ، اہلیہ نبیلہ،بیٹی اریبہ اور ڈرائیور ذیشان کو نمازجنازہ کے بعد سپردخاک کردیا گیا، جبکہ واقعہ میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ۔ساہیوال میں سی ٹی ڈی سے مبینہ مقابلے میں جاں بحق ہونے والے چار افراد خلیل ، اس کی اہلیہ نبیلہ ، بیٹی اریبہ اور ڈرائیور ذیشان کی لاشیں کوٹ لکھپت میں ان کے گھروں پر لائی گئیں تو کہرام مچ گیا اور انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے ۔خواتین پولیس اہلکاروں کی جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتی رہیں جبکہ دو خواتین شدت غم سے نڈھال ہو کر بیہوش ہو گئیں ۔بعدازں سوگواروں اورشہریوں کی بڑی تعدادکی موجودگی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کی گئی۔ خلیل، اس کی اہلیہ اور بیٹی کی نماز جنازہ پہلے ادا کی گئی بعد میں ذیشان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس موقع پر بھی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے ۔ شہریوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور پولیس کیخلاف شدید نعرے بازی بھی کی ۔ خلیل ،اسکی اہلیہ نبیلہ اوربیٹی اریبہ کی تدفین شہرخموشاں قبرستان میں کردی گئی جبکہ ذیشان کے لواحقین نے لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کرتے ہوئے فیروز پورروڈ پر دھرنادیدیا اور پولیس اور حکومت کیخلاف نعرے بازی کی۔ان کا کہنا تھا انصاف نہ ملنے تک ذیشان کی تدفین نہیں کی جائے گی۔ذیشان کو دہشتگرد قرار دینے پر وزیر قانون راجہ بشارت استعفی دیں۔چیف جسٹس نوٹس لیں اور انصاف فراہم کیا جائے ۔ذیشان کے بھائی احتشام نے کہاوزیر قانون راجہ بشارت کے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں ،الزمات واپس لینے تک تدفین نہیں کی جائے گی۔ بعدازاں پولیس افسروں کیساتھ مذاکرات کے بعدذیشان کے لواحقین نے دھرنا ختم کردیا اور میت کو مقامی قبرستان میں سینکڑوں افراد کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ ذیشان کے بھائی احتشام نے کہا پولیس افسران کی طرف سے مکمل انصاف اور تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے ۔چاہتا ہوں میرے خاندان کی حفاظت کی جائے ۔دھرناکسی دبائو کی وجہ سے ختم نہیں کیا گیا افسران کی یقین دہانی پر کیا گیا ۔ قبل ازیں ساہیوال میں لواحقین کے پوری رات دھرنا دینے اور شدید احتجاج کے بعد تھانہ یوسف والا پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔ ایف آئی آر میں سی ٹی ڈی کے 16نامعلوم اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے ۔مقدمہ نمبر 33/19 میں دہشتگردی اور قتل کی دفعات شامل ہیں۔مقتول خلیل کے بھائی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق دس اہلکار وردی اور چھ سادہ لباس تھے ۔مقدمے کے اندارج کے بعد ورثا نے ساہیوال بائی پاس کے قریب احتجاج بارہ گھنٹے بعد ختم کردیا جس کے بعدمقتولین کی میتیں لاہور روانہ کر دی گئی تھیں ۔ساہیوال مبینہ آپریشن میں شریک سی ٹی ڈی اہلکاروں کو لاہور منتقل کر دیا گیا جنہیں چوہنگ سنٹر میں رکھا گیا ہے ۔مقتولین کے لواحقین اور اہل علاقہ نے دوسرے روز بھی فیروز پور روڈ کو بند کر کے احتجاج کیا ۔ٹریفک کا نظام درہم برہم ہونے سے گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی رہیں ۔ مظاہرین کی جانب سے میٹرو بس سروس کے روٹ کو بھی بند کردیا گیا،سینکڑوں مسافر بسوں کے اندر محصور ہو گئے ۔ مذاکرات کیلئے آنے والے ڈی ایس پی کاہنہ رضاکار شاہ اور دیگراہلکاروں کو مشتعل افراد نے دھکے دیئے اور تشددکا نشانہ بنانے کی کوشش کی پولیس والوں نے بھاگ کر جانیں بچائیں۔خلیل کے بھائی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہمیں انصاف چاہیے ،جن لوگوں نے کہا تھا ہم انصاف دلائیں گے آج وہ نظر نہیں آرہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے واقعہ میں ملوث اہلکاروں کو سامنے لایا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ۔بعد ازاں پولیس افسران کی جانب سے مظاہرین سے مذاکرات کئے گئے جس پر احتجاج ختم کردیا گیا ۔پیپلز پارٹی انسانی حقوق ونگ کی جانب سے بھی واقعہ کیخلاف احتجاج کیا گیا اور حکومت اورپولیس کیخلاف نعرے لگائے گئے ۔ پولیس گردی کیخلاف ملتان اور میاں چنوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے ۔دوسری جانب مقتولین کی پوسٹ مارٹم رپورٹس سامنے آگئی ہیں جن میں بتایا گیا کہ خلیل کو سب سے زیادہ 13 گولیاں سینے اور ہاتھ پر لگیں جبکہ گاڑی چلانے والے ذیشان کو 10 گولیاں لگیں۔ خلیل کی بیٹی اریبہ کو سر اور جسم کے دیگر حصوں پر6 گولیاں لگیں جبکہ نبیلہ کو 4 گولیوں کے زخم آئے ۔ ادھر مبینہ مقابلے میں زخمی ہونے والے تین بچوں کو طبی امداددینے کے بعد ایمرجنسی سے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔ سی ٹی ڈی کے مشکوک مقابلے میں تین کمسن بچے عمیر، منیبہ اور ہادیہ زخمی بھی ہوئے تھے ۔ تینوں بچوں کو علی الصبح جنرل ہسپتال لاہورمنتقل کیا گیا جہاں ان کا طبی معائنہ ہوا ، ایکسرے بھی کئے گئے ۔رپورٹ کے مطابق عمیر کی ٹانگ میں گولی لگی لیکن خوشی قسمتی سے ہڈی بچ گئی۔ منیبہ گاڑی کا شیشہ لگنے سے زخمی ہوئی جبکہ معصوم ہادیہ کو چیک اپ کے بعد ڈسچارج کرکے گھر شفٹ کر دیا گیا ۔پرنسل جنرل ہسپتال ڈاکٹر طیب کے مطابق بچوں کے جسمانی اور نفسیاتی علاج کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی، بچوں کی حالت خطرے سے باہر ہے ،بچوں کو سرجیکل ایمرجنسی سے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا ہے جبکہ ان کی دیکھ بھال کیلئے 6 رکنی میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیدیا گیا ہے جو جسمانی اور نفسیاتی علاج کرے گا۔ علاوہ ازیں ساہیوال واقعہ پر ملک بھر میں فضا سو گوار رہی ۔ گھروں ،تجارتی مراکز اورپبلک مقامات پر عوام کی جانب سے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔ شہریوں نے مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں اور جو بھی اہلکار اس میں ملوث ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ۔ پنجاب بار کونسل نے ساہیوال واقعہ کے خلاف آج صوبہ بھر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا ۔پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین کے مطابق ساہیوال واقعہ کیخلاف آج وکلا عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے ۔ بار ایسوسی ایشنوں میں واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ لاہور(خصوصی نمائندہ ، مانیٹرنگ ڈیسک ) حکومت پنجاب نے سانحہ ساہیوال کا ملبہ ذیشان پر ڈالتے ہوئے واقعے کو کولیٹرل ڈیمیج قرار دیدیا۔صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے صوبائی وزرا اسلم اقبال،میاں محمود الرشید اور فیاض الحسن چوہان کیساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن میں حصہ لینے والی سی ٹی ڈی ٹیم کے سپروائزر کو معطل کر کے ٹیم کے تمام ارکان کو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔ واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی۔ سی ٹی ڈی کے مطابق پہلا فائر کار کے ڈرائیو ذیشان نے کیا جبکہ لواحقین کا موقف اس سے مختلف ہے لہذا حقائق کا تعین جے آئی ٹی کرے گی۔ سی ٹی ڈی کے مطابق یہ آپریشن سو فیصد انٹیلی جنس پر مبنی ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات کی بنیاد پر کیا گیا۔ذیشان داعش کے خطرناک نیٹ ورک کیساتھ کام کر رہا تھا جو ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کے قتل ، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں دوپولیس افسران کے قتل میں ملوث ہے ۔ان دہشتگردوں نے ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کے قتل میں ایک سلور رنگ کی ہنڈا سٹی کار استعمال کی تھی جس کی تلاش پولیس اور ایجنسیاں کر رہی تھی،13جنوری کو وہی ہونڈا سٹی کار دہشتگردوں کو لیکر ساہیوال گئی جس کو سپاٹ کیا گیا۔جب سیف سٹی کی کیمروں کی مدد لی گئی تو پتہ چلا ذیشان کی سفید آلٹو بھی دہشتگردوں کی ہونڈا سٹی کیساتھ تھی۔چنانچہ ایجنسیوں کے لوگ کیمروں کی مدد سے ٹریک کرتے ہوئے ذیشان کے گھر تک پہنچ گئے اور اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ذیشان دہشتگردوں کے ساتھ کام کر رہاہے ۔ذیشان کے گھرمیں بڑی مقدار میں گولہ بارود موجود تھا لہذا وہاں آپریشن کرنا مناسب نہ تھا، 19جنوری کو سیف سٹی کیمرے نے ذیشان کی سفید آلٹو کار کو مانگا منڈی کے مقام پر ساہیوال کی طرف جاتے ہوئے سپاٹ کیا جس کی اطلاع ایجنسیوں کو دی گئی۔سی ٹی ڈی ٹیم کو کہا گیا گاڑی کو روکا جائے کیونکہ انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق دہشتگرد گاڑی میں گولہ بارود لیکر جا رہے تھے ۔ جب ساہیوال میں گاڑی کوروکا گیا تو وہاں پر فائرنگ ہو گئی،گاڑی کے شیشے کالے تھے اور پچھلی سیٹ پر لوگ نظر نہیں آ رہے تھے ۔ گاڑی کو ذیشان خود چلارہاتھا، گاڑی سے دو خود کش جیکٹس ،8 گرنیڈ ، دو پستول اور گولیاں برآمد ہوئیں۔جے آئی ٹی اس بات کابھی تعین کرے گی کہ ذیشان یہ اسلحہ کہاں اور کس کیلئے لے کر جا رہا تھا اور یہ کہ اس کا خلیل کی فیملی کیساتھ کیا تعلق تھا۔ ذیشان کے گھر پر موجود دو دہشتگردوں نے سوشل میڈیا پر واقعہ کی خبر دیکھی تو گھر سے نکل کر گوجرانوالہ چلے گئے ۔ گوجرانوالہ میں خفیہ ایجنسی اور سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دہشتگردوں کو گھیرے میں لے لیا،جس پر دونوں نے خود کش جیکٹوں کے ذریعے خود کو اڑا لیا۔ یہ آپریشن انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا جس کی وجہ سے بہت سے معصوم شہریوں کی جانیں بچا لی گئیں ۔ذیشان ساہیوال میں مارا گیا جبکہ اس کے ساتھی دہشتگرد عبد الرحمن اور کاشف گوجرانوالہ میں اسی روز شب گیارہ بجے مارے گئے جو اسی آپریشن کا تسلسل تھا۔بد قسمتی سے خلیل کی فیملی کے قیمتی نقصان کی وجہ سے اس آپریشن کی حیثیت متنازع ہو گئی ۔اس واقعے میں کولیٹرل ڈمیج ہوا، جے آئی ٹی تعین کرے گی۔حکومت جاں بحق افراد کے لواحقین کو 2 کروڑ روپے کی مالی امداد دے گی اور بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی اٹھائے گی جبکہ طبی سہولیات بھی مفت فراہم کی جائیں گی۔حکومت نے اپنے طور پرایف آئی درج نہیں کی بلکہ متاثرہ خاندان کی جانب سے جو درخواست دی گئی اسکے مطابق من و عن ایف آئی درج کی اور ایک لفظ بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔ماڈل ٹائون کے سانحہ اور ساہیوال کے واقعہ میں فرق ہے ۔ اس سانحے میں وزیر اعلیٰ کے بقول انہیں اڑتالیس گھنٹے علم نہیں ہو اجبکہ یہاں وزیراعلیٰ چھ گھنٹوں میں متاثرہ خاندان کے گھر پہنچ گئے ۔پریس کانفرنس کے شرکا کو سیف سٹی کے کیمروں سے حاصل شدہ ویڈوز اور تصاویر بھی دکھائی گئیں جن سے پتہ چلتا تھا ذیشان کی کار دہشتگردوں کے زیر استعمال تھی ۔ 

 

 



آپ کیلئے تجویز کردہ خبریں










اہم خبریں