اسلام آباد، کراچی(وقائع نگار خصوصی،سٹاف رپورٹر،این این آئی)بینکنگ کورٹ کراچی نے جعلی بینک اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کے کیس میں سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور دیگر 15 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ۔عدالت نے دیگر جن ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے ان میں نمرمجید، اسلم مسعود، عارف خان، نصیر عبداﷲ حسین لوتھا، عدنان جاوید، محمد عمیر، محمد اقبال آرائیں، اعظم وزیر خان، زین ملک اور مصطفی ذوالقرنین اور دیگر شامل ہیں، عدالت نے ملزمان کو 4 ستمبر تک گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔کراچی کی بینکنگ کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کے کیس کی سماعت ہوئی ۔ایف آئی اے کی جانب سے استدعا کی گئی کہ ملزمان پرجعلی بینک اکاؤنٹس کے زریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے ، مزید تفتیش اورمعاملے کی تحقیقات کے لیے انہیں 14روزکے لیے ایف آئی اے کی تحویل میں دیا جائے ۔ انورمجید کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے درخواست کی مخالفت کی، فریقین کا موقف سننے کے بعد عدالت نے دونوں ملزمان کو 24 اگست تک جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا،ایف آئی اے نے کیس میں نامزد 15 مفرور ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی بھی استدعا کی ،عدالت نے ایف آئی اے کی استدعا منظور کرتے ہوئے آصف زرداری اور دیگر پندرہ مفرور ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ۔عدالت نے ایف آئی اے سے آئندہ سماعت پر کیس کی پیشرفت رپورٹ بھی طلب کرلی۔سابق صدر کی ہمشیرہ فریال تالپوراسی مقدمے میں ضمانت پر ہیں لہذا انہیں حراست میں نہیں لیا جائے گا۔میڈیا سے گفتگو میں منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری، فریال تالپوراورانورمجید کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سابق صدر کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا عدالت نے اس طرح کے کوئی احکامات جاری نہیں کیے ، میڈیا پر چلنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، آصف زرداری ضمانت کراتے ہیں یا نہیں یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے تاہم وہ بھاگنے والوں میں سے نہیں ہیں، انہوں نے پہلے بھی قانون کا سامنا کیا اور اب بھی کریں گے ۔فرحت اﷲ بابر نے بھی کہا آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری سے متعلق چلائی جانے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔ ذرائع نے بتایاوارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد ایف آئی اے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سابق صدر اور دیگر ملزمان کو کسی بھی وقت حراست میں لے سکتے ہیں،سابق صدر کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ وہ ہائی کورٹ سے راہداری ضمانت حاصل کرلیں۔