کہتے ہیں آدمی اگر سیکھنا چاہے تو وہ اپنے اردگردموجود کسی بھی چیز، معاملہ یاواقعے سے سبق سیکھ سکتا ہے۔ ایک دانا کا قول ہے ،’’میں نے نادان لوگوں کی گفتگو سے خود بولنا سیکھا، جو غلطیاں وہ کرتے تھے ، ان سے گریز کیا اور زمانے نے مجھے بہترین گفتگو کرنے والا تسلیم کرلیا۔‘‘یہ تو خیر دانائوں اور دانش مندوں کی بات تھی، ہمارے جیسے عام اخبار نویسوں کے لئے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ہے، اگر اپنے دائیں بائیں نظر رکھیں اور غور کریں۔ہمارے بعض رہنمائوں اور حکمرانوں نے حکومت اور سیاست کے حوالے سے میرے بعض اشکالات اور الجھنیں دور کر دیں۔ غور کیا تو کئی اہم نکتے سلجھ گئے اور بات ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوگئی۔

   جنرل پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے تو اس وقت صحافت میں آئے تین چار برس ہی ہوئے تھے، ان دنوں ایک قومی اخبار کے نیوز روم میںجونیئر ترین سب ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔جمہوریت اور آمریت کی بحثیں تو بہت کرتے رہتے، مگرتصورات واضح نہیں تھے۔ پرویز مشرف کا یہ احسان ہے کہ ان کے دور حکومت میں یہ بات سمجھ آ گئی فوجی آمرکیوں اچھا حکمران نہیں ہوسکتااور پاکستان میں کس لئے اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ پیچھے رہ کر اپنا کام کرنا چاہیے ۔یہ ادراک ہوا کہ ہرفوجی آمر خود کوجائز (Legitimate) کرانے کے چکر میں رہتا ہے۔عالمی قوتوں کے ساتھ اسے اس لئے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔جہاں ملک کے لئے بہتر ڈیل کرنے کی گنجائش ہو، وہاںاس کی توجہ ملک کے بجائے اپنے اقتدار کو طویل کرنے کی ڈیل کی طرف رہتی ہے۔ نقصان ملک وقوم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ہئیت یا سٹرکچر پر غور کرتے رہنے سے یہ سمجھ آئی کہ اسے ہمیشہ بیک گرائونڈ میں رہ کر پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کا کام کرنا چاہیے۔ فلموں کے پلے بیک سنگر کی طرح اس کا کام پس منظر میں رہنا ہے سٹیج پر آ کر پرفارم کرنا اس کامقدر(Destiny)نہیں۔

میاں نواز شریف کے طرز سیاست اور پالیسیوں سے ہمیشہ اختلاف رہا۔ چھوٹے میاں صاحب کی بزعم خود’’گڈ گورننس‘‘نے مزید مایوس کئے رکھا۔ اس کے باوجود یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ پانامہ فیصلے میں دئیے گئے گاڈ فادر کے حوالے  سے گویا چودہ طبق روشن ہوگئے۔بات فوراً ہی سمجھ آ گئی اور برسوں پرانی سیاسی گتھی ہمیشہ کے لئے سلجھ گئی۔مشہورناول نگار ماریاپُزو کا ناول ’’گاڈ فادر ‘‘میرا پسندیدہ رہا ہے، شائد اس لئے کہ زندگی کا پہلا انگریزی ناول یہی پڑھا۔ کالج کے زمانے سے اس کا ایک پیپر بیک ایڈیشن ملا ، پڑھنے کی کوشش کی تو بڑا لطف آیا۔ بعد میں اس ناول کے بعض ٹکڑے کئی بار پڑھے، ہر بار حظ اٹھایا۔گاڈ فادر پر بنی فلم کئی مرتبہ دیکھی، اس سلسلے کی دوسری اور تیسری فلم بھی دیکھی، بلکہ گاڈ فادر3 تو ابھی دو تین دن پہلے کسی چینل پر ایک بار پھرلگی تھی، مکمل دیکھنے پر مجبور ہوگیا۔اسکے باوجود کبھی اس تناظر میں غور نہیں کیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کو اللہ جزائے خیر دے، انہوں نے کمال فراست سے پانامہ کیس کے فیصلے میں یہ نکتہ یوں بیان کیا کہ میاں نواز شریف صاحب بلکہ شریف خاندان کی سیاست کا پورا فلسفہ ایک فقرے میں بیان ہوگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ میاں صاحب نے ایک سیاستدان نہیں بلکہ مافیا کے انداز میں اپنی جڑیں بنائیں، انہیں پھیلایا۔میڈیا، انتظامیہ، عدلیہ، فوج، تاجر، صنعت کار، مختلف برادریوں ، غرض ہر شعبے میں ایک ایسا نیٹ ورک تشکیل دیا،جس کی بدولت وہ تین مرتبہ وزیراعظم بننے اور پنجاب پر اس قدر طویل عرصہ اپنی سیاسی گرفت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ یہ بات ظاہر ہے ن لیگی احباب کو پسند نہیں آئے گی، خاص کر میڈیا میں ان کے منظور نظر افراد کو، مگر پوری دیانت داری سے عرض کر رہا ہوں کہ یہ ایک حقیقت اور امر واقعہ ہے۔ غیر جانبداری سے ، گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوگا۔

 کچھ نہ کچھ پلاننگ اور تدبیر سے ہر کوئی کام لیتا ہے۔ دیگر سیاستدانوں نے بھی کچھ نہ کچھ حساب کتاب کر کے ہی راستہ چُنا ہوگا۔بی بی سی سے طویل عرصہ وابستگی رکھنے والے سینئر صحافی آصف جیلانی نے ایک بار ذوالفقار علی بھٹو سے ایک مکالمے پر کالم لکھاتوقدرے حیرت ہوئی۔ بھٹو صاحب جن دنوں سیاست شروع کرنا چاہ رہے تھے، مختلف آپشنز ان کے سامنے تھیں، نوجوان بھٹو نے ان پر آصف جیلانی سے گفتگو کی۔ جیلانی صاحب کی تحریر سے اندازہ ہوا کہ بھٹوکسی نظریاتی سوچ کے بغیرذاتی نفع نقصان کو جانچتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں میںنہ جانے کا فیصلہ کر رہے تھے۔ بھٹو لیکن سیاسی مافیا نہیں تھے۔ ان میں بہت سی خامیاں ہوں گی، بلکہ تھیں، مگر وہ اتنا لمبا سوچ کر سیاست نہیں کرتے رہے۔ انہیں ویسے بھی یہ وہم تھا کہ بھٹو خاندان کے مرد زیادہ عمر نہیں جیتے، ان کی سیاست میں بھی عجلت کا رنگ موجود تھا۔ بھٹو نے مختلف شعبوں میں اثرونفوذ حاصل کر کے پورا سسٹم ہائی جیک کرنے کی کوشش بھی نہیںکی۔یہ طرہ امتیاز جناب نواز شریف کا ہے، جن کے خاندان نے پوری منظم پلاننگ کے ساتھ اسے کسی ’’مقدس ‘‘کام کی سی سنجیدگی سے انجام دیا۔ایک زمانے میں اجوکا تھیٹر نے مشہور جرمن ڈرامہ نگار بریخت کا ایک ڈرامہ ’’بالاکنگ ‘‘کے نام سے بنایا تھا۔ بریخت کے اس ڈرامے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے علامتی طور پر ہٹلر کے حوالے سے لکھا۔ اجوکا نے مقامی پس منظر میں اس کی ڈرامائی تشکیل کی، اسے دیکھنے کے بعد خود بخود ذہن میاں صاحب کی طرف جاتا تھا،مقامی سیاست میں ایسا صرف انہوں نے کیا۔ 

قوم پرست سیاست کے حوالے سے ایک زمانے میںدل کے اندر قدرے نرم گوشہ تھا۔ الحمدللہ قوم پرست جماعتوں نے یہ دور کر دیا اور سمجھ آ گئی کہ قوم پرستی کاالگ سے کوئی ارفع اخلاقی نظریہ نہیں ۔چاہے وہ ترقی پسند یا لیفٹ کی جماعتیں کہلائیں، ان پر لسانی اور قوم پرستی کا تعصب غالب آ جاتا ہے۔ باہر نکلنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔لیفٹ کافلسفہ تو یہ ہے کہ ایک مزدو ر دوسری جگہوں پر موجود مزدور کو اپناحصہ سمجھ کر سوچے، کسان، مزدور یا دیگر غریب طبقات کے مسائل ایک سے ہیں، ان کا حل بھی متحد ہو کر نکالا جائے ۔اس کے برعکس ہم نے دیکھا کہ بلوچ ، پشتون یا سندھی قوم پرست یہ جاننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ پنجاب کا مزدور یا کسان بھی مظلوم اور دکھی ہوسکتا ہے۔ ان کے نزدیک نسل، قبیلے اور زبان بدلنے سے گویا مظلوم کہلانے کا حق بھی چھن جاتا ہے۔آخری تجزیے میں یہ لوگ قوم پرستی کے تنگ خول میں پھنسے کسمساتے رہ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر شاہ محمد مری ،جن کا میرے دل میں بڑا احترام ہے، ان کی معروف ترقی پسند کارکن اور دانشور کمال خان شیرانی پر ایک مختصر کتاب پڑھی۔ کمال خان شیرانی کے حالات اور واقعات انہوں نے یوں بیان کئے کہ پڑھ کر متاثر ہوا ۔ ایک جگہ پر میں ہکا بکا رہ گیا کہ کمال شیرانی ایک اور کمیونسٹ رہنما میجر ر اسحاق کے اس قول کے بڑے قائل تھے کہ پنجابی چونکہ گندم خور ہیں، اس لئے غبی اور کندذہن ہیں۔ شدید حیرت ہوئی کہ کمال شیرانی جیسا صاحب مطالعہ اور تجربہ کار شخص بھی ایسی رائے رکھ سکتا ہے۔ پنجاب کے خلاف تعصبات اس قدر غالب آ گئے کہ کروڑوں اہل پنجاب کے بارے میں ایک منفی اور فضول سوئپنگ سٹیٹمنٹ پر ایمان لے آئے۔ 

   مذہبی سیاست کے حوالے سے بہت پہلے سمجھ آ گئی تھی کہ مذہبی جماعتوں کو صرف ایک کام منتخب کرنا چاہیے، سیاست کریں یا پھر نظریاتی کام ۔ اگر سیاست کرنا ہے تو پھر مذہبی سیاست کا تڑکہ نہ لگائیں اور اپنی پہچان یا شناخت بھی مذہبی سیاسی جماعت کے طور پر نہ کرائیں کہ پھر ان کی ہر ناکامی اور شکست مذہبی حلقوں کی شکست تصور ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن کو البتہ یہ کریڈٹ دینا بنتا ہے کہ انہوں نے یہ رائے زیادہ مستحکم اوریکسو کرنے میں اہم حصہ ڈالا۔ مولانا کی سیاست کو دیکھنے والا ہر غیر جانبدار شخص بتا سکتا ہے کہ اس کا مذہب کے اخلاقی اصولوں سے دور دور کا تعلق نہیں۔ کسی بھی موقعہ پرست، اقتدار کی لالچی،روایتی سیاسی جماعت کی جو پالیسیاں یا اقتدار میں حصہ پانے کی جس قدر خواہش اور سوچ ہوسکتی ہے، ویسی ہی جناب مولانا فضل الرحمن میں پائی جاتی ہے۔ ایم ایم اے میں موجود بیشتر جماعتوں کا یہی کردار ہے۔

 جماعت اسلامی میں البتہ ایک عنصر ایسا ہے جو نظریاتی رجحان اورمزاج رکھتا ہے۔ اس کی مانی تو نہیں جاتی، لیکن وہ جماعت والوں کو ایم ایم اے میں پرسکون بھی نہیں رہنے دیتا۔متحدہ مجلس عمل کا حصہ بن کر راحت ہے نہ باہر نکل کر خوشی ملنے کا امکان ہے۔بزرگ ایمان کی ایک ادنیٰ قسم یہ بتاتے ہیں کہ دل مطمئن نہ ہو۔جماعت اسلامی والے اس درجہِ ایمان سے ہمیشہ سرشار رہے ہیں۔   

  کالم کی گنجائش ختم ہوگئی، حالانکہ اصل موضوع جس کے لئے یہ کالم لکھنا تھا، وہ جناب زرداری کے تازہ فرمودات ہیں۔ جن سیاسی حقائق سے زرداری صاحب نے ہمیں روشناس کرایا، ان پر تو باضابطہ قسم کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے۔ اس پر مگر قدرے تفصیل سے بات ہوگی۔ تحریک انصاف کا تذکرہ بھی نہیں ہوا، وہ ادھار بھی اللہ نے چاہا تواس سلسلے کے اگلے کالم میں چکا دیا جائے گا۔