اہم مقدمات کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر کا وفاقی دارالحکومت سے اغوا بذات خود باعث تشویش مگر اس کا افغانستان میں قتل صرف تشویشناک نہیں‘ریاستی اداروں کے لیے شرمناک ہے۔ شہری زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے نصب کیمرے کام آئے نہ اسلام آباد سے افغان سرحد تک موجود جگہ جگہ پولیس ناکے اور نہ سراغرساں اداروں کی پُھرتیاں۔ یہ مگر پہلا واقعہ نہیں‘ سابق وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کا صاحبزادہ علی حیدر گیلانی ملتان اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا برخوردار لاہور سے اسلحے کے زور پر اغوا کر کے افغانستان لے جایا گیا اور کوئی روک نہ پایا۔گیلانی صاحب اور سلمان تاثیر کے صاحبزادگان کو دن دیہاڑے اغوا کیا گیا اور پوری دنیا کو پتہ چل گیا مگر اغوا کار پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کی چوکسی اور مستعدی کا منہ چڑاتے ہوئے انہیں سرحد پار لے گئے‘ کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ دونوں مشتبہ انداز میں واپس ہوئے اور ہمارا کوئی ادارہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ان کی بحفاظت واپسی میں اس کا کردار ہے۔ ایس پی طاہر داوڑ کن حالات میں اغوا ہوئے؟ کئی روز تک خفیہ ادارے اور پولیس حکام ان کا سراغ کیوں نہ لگا سکے؟ اور اغوا کاروں کے مقاصد کیا تھے؟ یہ تاحال سربستہ راز ہے۔ کل خبر بریک ہوئی تو حکومتی ادارے اور ارکان اسے غلط قرار دیتے رہے حالانکہ ہمارے پشاور میں رفیق کار ممتاز بنگش کے ذرائع تصدیق کر رہے تھے‘ اسمبلی میں سوال اٹھا تو وزیر اطلاعات اور وزیر مملکت برائے داخلہ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہ تھے جبکہ پاکستانی قونصلیٹ لاش وصول کر چکا تھا۔ریاستی اداروں کی نااہلی اور ناقص کارگزاری: نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں سول اور فوجی حکمرانوں نے اپنے اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے انہیں تباہ کیا ‘پولیس ریاست کے بجائے حکومت کی تابع دار حکمرانوں کی حاشیہ بردار بنی یا بنائی گئی تو اہلیت و صلاحیت نظم و ضبط اور کارگزاری کا باب محکمے کی کتاب اور ملازمت کے آداب سے یوں غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ آئی جی سطح کے پولیس افسر حاکم وقت سے گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوں اور قبضہ گروپ‘ منشیات فروش‘ سمگلر ان سے قربت کے مزے لوٹیں تو آوے کا آوہ بگڑنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ کسی زمانے میں پنجاب پولیس کی شہرت تھی کہ وہ اُڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہے۔ مگر اب یہ صرف بالائی آمدنی کا حساب لگا سکتی ہے یا ان مراعات کا جو دوران ملازمت ملتی ہیں۔ پولیس افسران اور اہلکار اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے بجائے اگر حکمرانوں‘ ان کے عزیز و ااقارب ارکان پارلیمان کی کورنش بجا لانے‘ جائز و ناجائز کام نمٹانے اور انہیں صبح و مسا خورسند رکھنے کے لیے سرگرداں ہوں تو قیام امن پر توجہ کیوں دیں اور دینا بھی چاہیں تو اتنا وقت کہاں؟ ہر وقت یہ دھڑکا بھی لگا ہو کہ کسی اعظم سواتی اور جمیل احسن گجر کی ناراضگی فوری تبادلے اور معطلی کا سبب بن سکتی ہے۔ انگریز نے اس پولیس اور بیورو کریسی کے زور پر کروڑوں ہندوستانیوں کو دو سوسال تک غلام بنائے رکھا اور پاکستان میں بعض غیر مقبول حکمرانوں نے اچھی انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر دھڑلے سے حکمرانی کی۔ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کو اطلاع ملی کہ کوئٹہ میں ایک نامعلوم فرد نے رات کے وقت کمشنر ہائوس میں گھسنے کی کوشش کی۔ محافظوں کی طرف سے فائرنگ پر وہ فرار ہو گیا۔ نواب صاحب نے کمشنر کو منصب سے ہٹا دیا اور فائل پر لکھا ’’اسے آئندہ کبھی فیلڈ ڈیوٹی نہ دی جائے۔ جس کمشنر کا اتنا بھی رعب نہیں کہ ایک چور ڈر کے مارے کمشنر ہائوس سے چار کلو میٹر دور تھر تھر کاپنے‘ وہ اپنے منصب سے انصاف نہیں کر سکتا‘‘۔ نواب صاحب انسانی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع تھے بطور حکمران مگر ان کی خوبیاں خامیوں پر حاوی تھیں سخت گیر اوربااصول حکمران کے طور پر وہ اپنے بچوں کو بھی گورنر ہائوس میں رات گزارنے کی اجازت نہ دیتے کہ باہر جا کر شب بسری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں ایک بہت ہی عزیز شخص نے سفارش کی درخواست کی تو ٹال نہ سکے مگر براہ راست سفارش پر آمادہ پھر بھی نہ ہوئے۔ دوسرے دن اس دوست کو اسمبلی ہال بلایا‘ کار سے اتر کر اس کا ہاتھ پکڑا اور ٹہلتے ہوئے ہال میں داخل ہو گئے۔ متعلقہ سرکاری افسر نے اس شخص کی گورنر مغربی پاکستان سے قربت کا نظارہ کیا اور کچھ کہے سنے بغیر کام کر دیا۔ اس کے بعد مگر حکمرانوں نے اپنے عزیز و اقارب‘ دوست احباب اور شہر کے شرفا کے بجائے ہر ایرے‘ غیرے ‘ لچے‘ لفنگے‘ بدقماش کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کیمروں کے سامنے کیٹ واک شروع کر دی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ ایک زمانہ تھا جب مشکوک شہرت کے کرداروں کو کوئی شادی بیاہ کی تقریب اور سیاسی‘ سماجی ادبی محفل میں نہیں بلاتا تھا مگر پھر زمانہ بدلا‘ اقدار و روایات پر زوال آیا اور بدنام زمانہ افراد اور خاندانوں سے سیاستدانوں‘ ججوں‘ جرنیلوں اور صحافیوں کی دوستیاں بلکہ رشتہ داریاں قائم ہونے لگیں۔ قبضہ گروپ‘ منشیات فروش‘ سمگلر اور دوسرے جرائم پیشہ افراد اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں بااختیار لوگوں کے دائیں بائیں بیٹھے نظر آئے۔ اعلیٰ تقرر و تبادلوں میں سفارشی اور مقتدر افراد کے فیصلوں میں دخیل‘ کاروبار میں شریک۔ ماضی میں بعض اہم تقرریوں کے حوالے سے ایک پراپرٹی ٹائیکون کا نام آتا رہا اور میاں نواز شریف و آصف علی زرداری کے مشہور زمانہ بھوربن و لاہور معاہدے کا ضامن یہی ذات شریف تھی۔جب عدالت نیب‘ ایف آئی اے یا پولیس کو مطلوب اور بسا اوقات سزا یافتہ کوئی شخص صدر‘ وزیر اعظم‘ وزیر مشیر‘ یا کسی دوسرے عہدے دار کی قیام گاہ ‘ گاڑی اور دفتر میں براجمان نظر آئے ‘سیاسی جماعتوں کے اہم اجلاسوں کی جان ہوتو کسی ریاستی ادارے کی کیا مجال کہ اس سے تعرض کر سکے۔ پولیس بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے وہ بھلا کیوں اپنی نوکری خطرے میں ڈالے۔ یوں ملی بھگت اور مُک مکا کے اس کلچر نے جنم لیا جس کا فائدہ صرف جرائم پیشہ عناصر نہیں عسکری تنظیموں نے بھی اٹھایا اور ریاستی اداروں کی کارگزاری زوال پذیرہوئی ۔نوبت بایں جارسید کہ پولیس کا اعلیٰ افسر اغواہوا‘ ایک شہر سے دوسرے شہربالآخر دوسرے ملک پہنچا دیا گیا مگر کوئی اغوا کاروں کا سراغ لگا سکا‘ نہ اس افسر کی کہیں موجودگی کا پتہ چلا اور نہ اسے زندہ بازیاب کرانے کی تدبیر کارگر ہوئی۔ یہ صرف ایک افسر کے اغوا اور بہیمانہ قتل کا اندوہناک سانحہ نہیں پاکستان کو بدستور ایک غیر محفوظ ریاست ثابت کرنے کی سازش ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کار ادھر کا رخ نہ کریں۔ تدارک محض بیان بازی سے نہیں عملی اقدامات سے ہو سکتا ہے۔ عمران خان پولیس میں سیاسی مداخلت نہ کرنے کا اعلان کر چکے مگر اس کی پرفارمنس بہتر کرنے کے لئے اور بہت کچھ درکار ہے ادارے کی اوور ہالنگ‘ قابل‘ دیانتدار اور پرجوش افسروں و اہلکاروں کی حوصلہ افزائی اور سراغرسانی کے نظام کو مربوط کرنا۔ جرم کو روکنا چیلنج ہے اور سیاست و حکمرانی کے جرم سے ملاپ کے اداروں کی پرفارمنس پر منفی اثرات کا خاتمہ کئے بغیر اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونا مشکل بلکہ ناممکن۔ کیا کسی دیدہ ور کو احساس ہے یا صرف بیان بازی سے ہر قلعہ سر کرنے کے ارادے ہیں۔