27اکتوبر 1947ء کو جب بھارتی فوج کا پہلا دستہ سرینگر کے ایئر پورٹ پر اترا تو کشمیرکی تاریخ کا تیرہ بخت باب قلمبند ہونا شروع ہوا۔یہ ایک المناک داستان ہے اور تاریخ انسانی کا سیاہ باب بھی کہ بھارت نے برطانوی غلامی سے رہائی اور آزادی پانے کے بعد فوراً کشمیریوں کاحق خودارادیت چھین لیا حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ کشمیر پر تقسیم برصغیر کا فارمولہ نا فذ العمل کیا جاتالیکن ہواکچھ اور۔ 27 اکتوبرکوتاریخ جموں وکشمیرکاسیاہ ترین دن ہے اور بھارتی فوج کشی عصرحاضر کی جمہورپسند دنیاکیلئے ایک بڑالمحہ فکریہ ہے۔ یہ اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ممبر ممالک کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ سات دہائیاں گزرجانے کے بعدبھی کشمیرسے متعلق قراردادوں کوروبہ عمل لانے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ یہ 27اکتوبر1947ء کے سیاہ دن کی کرشمہ سازی ہے کہ اس دن سے آج تک لاکھوں کی تعداد میں اسلامیان کشمیرکوموت کے گھاٹ اتارا گیا، لاتعداد کشمیری خاندان جلاوطن ہوئے اوربے شمار لاپتہ۔ اکتوبر1947ء کوسفاک بھارتی فوجیں سرینگر ائیرپورٹ پر اتر یں اور کشمیر ایک بد ترین گھور اندھیرے میں گم ہو کر رہ گیا۔بھارت کی غاصب فوج نے سرینگر ائیر پورٹ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد چن چن کر بھارت مخالف مسلم سیاسی کارکنوں کو گرفتار اور شہید کرنا شروع کیا ۔ظلم اوربربریت جاری رکھتے ہوئے بھارت کی قاتل فوج تیزی سے پوری ریاست جموں وکشمیر میں پھیلتی چلی گئی۔دھوکہ بازاورمکار بھارت کی غاصب فوجیں،بدترین مسلم دشمن بھارتی لیڈر پنڈت نہرو کے اس دعوے کے ساتھ کشمیر میں آئیں کہ بقول اس کے حالات بہتر ہوتے ہی واپس چلی جائیں گی اور کشمیریوں کو اپنے مقدر اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیاجائیگا۔مظلوم کشمیریوں کی مدد کو آنے والاقبائلی لشکر واپس چلا گیا لیکن بھارت نے اپنا وعدہ پورا کرنے کی بجائے کشمیر کو مستقلاً اپنے دیوہیکل حجم میںضم کرنے کی کوشش شروع کی۔بھارت کی اس بدنیتی سے روزاول سے ہی یہ بات الم نشرح ہوچکی تھی کہ 27اکتوبر1947ء ، کوکشمیرپربھارتی فوج کشی کا مقصد صرف اورصرف کشمیر ہڑپ کرنا اور اس سرزمین پر اپنی قوت کااپنا سکہ جمانا تھا۔ 27اکتوبر1947سے آج تک کشمیر میں دورِ ظلمات کے 70برس گزرگئے اور بھولے سے بھی کشمیری مسلمانوں کی رائے ، اقوام متحدہ کی قراردادوں، پنڈت نہرو کے وعدوں سمیت کسی بات کا احترام نہ ہوا۔ اس لئے کشمیری عوام گزشتہ ستر برسوں سے 27اکتوبر کونہ صرف یوم ماتم، یوم غم اور یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیںبلکہ 1947سے کشمیرکی آزادی کی جدوجہدکررہے ہیںاور مختلف ادوار میں مختلف ناموں ، مختلف تنظیموں اور مختلف شخصیات کی صورت انکی یہ جدوجہد جاری رہی جو آج پورے آب وتاب سے اپنی منزل مرادپانے کی طرف گامزن ہے ۔27اکتوبر کے ساتھ کشمیریوں کی بد قسمتی کی کہانی وابستہ ہو کر رہ گئی اور اب یہ کشمیر میں ایک معتبر روایت ہے کہ27 اکتوبرکل کی طرح آج بھی کشمیر کے عوام کو غمزدہ اور کشمیر کے ماحول کو سوگوار کر دیتا ہے۔ یہ دن اہل کشمیر کو بد قسمتی کی داستان یاد دلاتا ہے کہ جب طویل جدوجہد کے بعد برصغیر آزادی سے ہمکنار ہوا تھا۔ کشمیر یوںکو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سزا دی گئی۔ اسی جرم بے گناہی کا احساس کشمیریوں کو اغیارکی غلامی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرنے دے رہا اور وہ نسل در نسل آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں۔ گزشتہ ستربرس کی تاریخ شاہدوگواہ ہے کہ بھارت سفاک کے جبرکے باوجودکشمیریوں نے خود کو ذہنی اور عملی طور پر ایک طویل جدوجہد کے لئے تیار کر لیااوردہلی سے راہ و رسم بڑھانے ، بھارت کے ماحول ہی میں رچ بس جانے کی بجائے اپنی انفرادیت اور اپنے تشخص کی بحالی کے لئے خود کو اپنے خول میں بند کر دیا۔ کشمیریوں نے دہلی کو ایک الگ دنیا سمجھ کر اس سے ذہنی اور قلبی دوری برابر قائم رکھی اور آج بھی دہلی کے ماحول ، مزاج اور رویوں کا کشمیر کی عوامی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ کشمیریوں نے خود کو (Self Centred )بنا کر دہلی کے ساتھ کوئی جذباتی، نظریاتی یا سیاسی رشتہ قائم نہ رکھا۔ اس کی وجہ یہ احساس تھا کہ اگر انہوں نے دہلی کے ساتھ گھلنے ملنے کی کوشش کی تو یہ کشمیر کی قومی شناخت کو مسخ کر کے انڈینائزیشن کی کوشش کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام اور بعض سیاسی اور دینی شخصیات نے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ جس سے کشمیر کا اسلامی تشخص کسی نہ کسی طور برقرار رہا۔ کشمیری معاشرے نے اپنی کشمیری روایات کو برقرار رکھ کر اسے بھارتی استعمارکی یلغاروںکی نذر ہونے سے بچائے رکھا۔ دلی نے کشمیریوں کے ان جذبات کو ترغیب و تحریص سیاہ قوانین اورظلم وبربریت کے ذریعے دبانے اور ختم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی اورکشمیر کی متنازعہ حیثیت کا احساس کشمیریوں کے دماغوں کی ایک خلش بن کر نسل در نسل منتقل ہوتارہاآج جب پاکستان کاسبزہلالی پرچم کے زیر سایہ کشمیرکانوجوان ہندوسے آزادی حاصل کرنے کے لئے اپنی جوانی قربان کرتاہے اوراس کا کفن بھی پرچم پاکستان بن رہاہے تویہ اسی طویل جدوجہدکاحتمی فیزہے۔یہ دراصل دوقومی نظریئے کی تکمیل ہورہی ہے اس سے بڑھ کر دوقومی نظریئے کے ساتھ وفاداری کا کیا ثبوت ہو سکتاہے ۔کشمیریوں کے لا شے سبز ہلالی پرچم میں لپٹے ہوئے ہیںاوروہ بھارتی ترنگے کے مقابلے میں سبزہلالی اسلامی پرچم کوتھامے اورچومے ہوئے مسلمان ریاست پاکستان کے ساتھ وفا کی ایک نئی تاریخ اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں۔وفا شعاروں کے اس قافلے کی منزل صرف اور صرف پاکستان ہے۔آزادی کا سافٹ وئیر نئی نسل میں انسٹال کر دیا گیا ہے۔1947ء سے کشمیرکی جدوجہدآزادی مختلف ناموں ، مختلف تنظیموں اور مختلف شخصیات کی صورت مختلف ادوار میں جاری رہی۔ اس طویل جدوجہد میں کشمیریوں نے ہمیشہ 27اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ 27اکتوبر کے ساتھ کشمیریوں کی بد قسمتی کی کہانی وابستہ ہو کر رہ گئی اور اب یہ کشمیر میں ایک معتبر روایت ہے کہ27اکتوبر کشمیر کے عوام کو غمزدہ اور کشمیر کے ماحول کو سوگوار کر دیتا ہے۔ یہ دن اہل کشمیر کو بد قسمتی کی داستان یاد دلاتا ہے کہ جب طویل جدوجہد کے بعد برصغیر آزادی سے ہمکنار ہوا تھا۔ کشمیر یوںکو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سزا دی گئی۔ اسی جرم بے گناہی کا احساس کشمیریوں کو اغیارکی غلامی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرنے دے رہا اور وہ نسل در نسل آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں۔ 27اکتوبر وہ منحوس دن ہے جب 70سال قبل بھارت نے بغیر کسی اخلاقی جواز کے جموں کشمیر میں اپنی فوجیں اتار کر ایک نہتی اور مجبورقوم کو اس کی مرضی اور منشا کے خلاف غلام بنالیا۔بھارت اپنی فوجوں کی کشمیرواردکرانے کے بدترین فعل کو اگرچہ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست کے ساتھ جوڑتا ہے، لیکن اس وقت مہاراجہ اصولی اوراخلاقی طور پر ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے بے دخل ہوچکاتھا کیونکہ کشمیری عوام نے اس کے خلاف علمِ بغاوت بلندکی ہوئی تھی۔ اس لئے ایسے فردِ واحدکواصولی اور اخلاقی طورپر یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ کشمیری عوام کی تقدیر کا فیصلہ ان کی رائے جانے بغیر ازخودکرتا۔اس پرمستزاد یہ کہ کشمیری قوم نے کبھی بھی بھارت کے اس طرح کے جبری فوجی قبضے کو دل سے قبول نہیں کیا ہے اور وہ روزِ اول سے ہی اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ بھارت کے بانی لیڈرپنڈت جواہرلال نہرونے بین الاقوامی سطح پر اہل کشمیرکے ساتھ وعدے کئے تھے کہ انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے گا، لیکن وہ اپنے ان وعدوں سے مکر گئے۔