شہباز شریف نے تو بدھ کو اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنا تھی، انہوں نے اپنی غیر حاضری موسم پر ڈال دی،جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کے راہنما سراج الحق‘ ولی خان کے صاحبزادے اسفند یار بھی وہاں نہ پہنچے، کیا یہ محض حسن اتفاق ہے، جی نہیں۔۔ یہ الیکشن کے خلاف احتجاج سے کنارا کشی ہے، موسم اتنا بھی خراب نہیں تھا کہ موٹر وے بھی بند ہوجاتی ، لاہور سے اسلام آباد ہی نہیں ، پورے پاکستان اور پوری دنیا کیلئے پی آئی اے کی ایک بھی فلائٹ متاثر نہیں ہوئی ، ایک سوال یہ بھی ہے کہ شہباز شریف نے کب سے موسم کا حال جاننے کے بعد سیاست کرنا شروع کی ہے، انہوں نے نہیں جانا تھا اور وہ نہیں گئے،،پاکستان پیپلز پارٹی کی گیم سہ طرفی ہے، اپوزیشن کے اجلاس میں جائیں، ان کے احتجاج میں شامل ہوں اور سب کو اچھے بچے بننے کا درس دو، اس احتجاج میں پیپلز پارٹی کے 10 معروف لوگ شریک ہوئے، سب کا ایجنڈا ایک ہی تھا،اسمبلی میں جانا ہے،حلف اٹھانا ہے اور عمران خان کو ان کے انتخابی ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے موقع بھی دینا ہے، اس ایجنڈے کو شہباز شریف بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اسے ن لیگ پر لاگو نہیں کر سکتے،پنجاب میں تحریک انصاف سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے حکومت سازی کیلئے تگ و دو نہیں کی،یہ بھی سب کے سامنے ہے، یہ دنیا میںکہیں بھی نہیں ہوتا کہ آپ ہتھیار ڈالنے کے باوجود جنگ جاری رکھنے کااعلان کرتے رہیں، بہرحال شہباز شریف کا کردار انکی سیاسی فراست کا اظہارہے۔ ٭٭٭٭٭ عمران خان وفاق میں حکومت سازی کیلئے ابھی تک مشکلات کا شکار ہیں ، ان کی اس مشکل کا کوئی پائیدار علاج بھی موجود نہیں ، ماضی میں کبھی وفاق میںدو جماعتوں کی حکومت آسانی سے نہیں چلی ، عمران خان تو کئی جماعتوں اورایک ایک آزاد رکن اسمبلی کے مرہون منت دکھائی دے رہے ہیں ، باقی جماعتوںکا تو ابھی پتہ نہیں لیکن ایم کیو ایم کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتاہے کہ یہ یاری تین مہینوں سے زیادہ نہیں چلے گی ، عمران خان کے اعصاب کاامتحان ہے،عمران خان تمام مسائل اور مصائب کے باوجود اپنی حکومت کا آغازکئی انقلابی اصلاحات کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ، باتیں تو بہت ساری میرے علم میں ہیں لیکن ایک دو کا ذکر کئے دیتا ہوں ،وفاق اور صوبوں میں جووزیر لئے جا رہے ہیں ، ان کی وزارتیں تین تین ماہ کے پروبیشنل پیریڈ پرہونگی ، انہیں مستقل وزارت کیلئے کئی امتحانات سے گزرنا ہوگا، یہاں تک کہ ان کے آفس آنے، کام کرنے اور دفتر سے واپس جانے تک کی مانیٹرنگ ہوگی،عوام کی شکایات اور وزراء کی کوتاہیوں کو بھی نوٹ کیا جائے گا۔دوسرا اور اہم ترین کام خود احتسابی کا ہے، ان لوگوں کے خلاف مواد اور شہادتیں حاصل کر لی گئی ہیں، جنہوں نے امیدواروں سے ٹکٹ دلوانے کیلئے پیسے پکڑے، سنا گیا ہے کہ پیسے پکڑنے والوں میں ایک دو لوگ وہ بھی ہیں،جنہیں عمران خان کا انتہائی قریبی ساتھی سمجھا جاتا رہا ہے، پھر ایسے لوگوں کو بھی الیکٹ ایبل کہہ کر ٹکٹ دلوائے گئے جو اپنے اپنے حلقوں میںووٹروں کے ٹھکرائے ہوئے تھے،پولنگ اسٹیشنز پر جو شکایات مخالفین کو ہیں ان کا شکار خود پی ٹی آئی کے امیدوار بھی بنے، اس مقام پر نوٹ وصول کرنے والوں میں سرکاری ملازمین اورپولنگ عملہ کے ارکان بھی شامل بتائے جا رہے ہیں، پی ٹی آئی کی بھی کئی نشستیں اس لین دین کا نشانہ بنیں،تحریک انصاف کیلئے تیسرا بڑا خطرہ وفاق اور صوبوں میں الیکشن کے بعد ن لیگ اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ ہے، اس گٹھ جوڑ میں عدالتی بیورو کریسی بھی شامل ہے ، اس بے لگام گھوڑے نے جو موجیں پچھلی تین چار دہائیوں میںکی ہیں، ان سے دستبرداری مشکل کام ہے، ن لیگ بیوروکریسی کے ہتھیار کو تحریک انصاف کی جڑیں کھوکھلی کرنے کیلئے استعمال کرے گی، ن لیگ کے کاریگروں کو یہ خبر مل چکی ہے کہ اسمبلیوں میں حلف اٹھائے جانے کے دو ہفتوں بعد ہی بہت سارے کامیاب لوگوں کی گرفتاریاں شروع ہو جائیں گی،پنجاب سے ڈھائی سو کے قریب بیوروکریٹس شکنجے میں آ سکتے ہیں،جن میں سے زیادہ تر کا تعلق لاہور سے ہو سکتا ہے، اکرم درانی ، امیر مقام ، رانا ثناء اللہ اور سعد رفیق کیلئے آنے والے دن بہت کٹھن ہو سکتے ہیں، مالم جبہ میں ایک بہت بڑا محل کس نے کس کے لئے بنوایا ہے یہ کہانی بھی منظرعام پر آنے والی ہے، پنجاب فوڈ کمپنی میں گھپلوں کے بہت سارے نئے انکشافات بھی منظر عام پر آئیں گے۔۔ابھی اور بہت کچھ بتانا باقی ہے ۔ عمران خان نے پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے مسٹر کلین تلاش کر لینے کا دعوی کیا ہے، ممکن ہے کہ یہ سطور پڑھے جانے تک اس کے نام کا بھی اعلان ہوجائے ہمارے خیال میں تو یہ نیو سمن آباد ، مزنگ اور اچھرہ کے سنگم پر ایک پتلی سی گلی کے رہائشی میاں اسلم اقبال بھی ہو سکتے ہیں ، لیکن پی ٹی آئی پنجاب میں اور بھی کئی شریف لوگ ہو سکتے ہیں ، سبھی تو علیم خان کی طرح نیب زدہ نہیں ، نیب خود بھی ماضی میں کلین لوگوں کا ادارہ نہیں رہا ،پتہ نہیں علیم خان کلین چٹ لینے میں اب تک کیوں ناکام رہے،میرے خیال میں آسانی سے پلی بارگین ہو سکتی تھی قارئین ایک بات یاد رکھیں۔۔۔انسان مسلمان اور غیر مسلمان ہو سکتے ہیں، پر یہ اصول اور قانون پرندوں پر لاگو نہیں ہوتا، پرندے صرف پرندے ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ درندوں والا سلوک کبھی نہیں ہونا چاہئے، اگر ایک بار پھر ایک جمہوری حکومت قائم ہو رہی ہے تو اس کے ثمرات پرندوں تک بھی پہنچنے چاہئیں ، پرندوں کی چہکار ختم ہوجائے تو ہر صبح ویران ہو جاتی ہے کسی چڑیا پر ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی کوئی پابندی نہیںہے، وہ دانہ چگنے کیلئے کسی بھی منڈیر پر بیٹھ جاتی ہے، اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ کوئی چڑیا کبھی کسی شکاری کے ہتھے نہ چڑھے آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ میں کیا پہیلیاں بجھانے لگ گیا ہوں، میرے کسی ایک لفظ کا تعلق بھی کسی پہیلی سے نہیں، میں تو وہی لکھ رہا ہوں جو نوشتہ دیوار ہے۔ حرف آخر میاں نواز شریف صاحب اڈیالہ جیل سے ہر ہفتے الطاف حسین کی طرح ایک طویل ٹیلی فونک کانفرنس کیا کرتے تھے، جسے اب روک دیا گیا ہے۔