اسلام آباد،کراچی ( خبر نگار خصوصی، سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک)جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے حوالے سے کہا ہے کہ جے یو آئی27 اکتوبر کونہیں بلکہ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگی جبکہ چیئر مین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہاہے کہ ہم مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی حمایت کرتے ہیں ۔ گزشتہ روز میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ ملک بھر27 اکتوبر کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرے ہونگے ۔قریبی شہروں کے لوگ 27 اکتوبر کو مظاہرے کرکے واپس چلے جائینگے جبکہ دور کے شہروں سے قافلے چل پڑیں گے ۔ حکومت بھارت کو ایٹمی حملہ جبکہ ہمیں خالی دھمکیاں دے رہی ہے ، یہ بھارت سے لڑ سکتے ہیں نہ ہم سے ۔ پشاور میں 13 ا کتوبرکو رضاکاروں کی پریڈ ہوگی،ہر صوبے سے 10 ہزار رضاکار مانگے ہیں۔دریں اثنا فضل الرحمٰن کی صدارت میں پارٹی رہنمائوں کا اعلیٰ سطح اجلاس ہواجس میں آزادی مارچ کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا جبکہ کارکنوں اور پارٹی رہنمائوں کو بلاوجہ پولیس کی جانب سے تنگ کرنے پر غور کیا گیا ۔ فضل الرحمٰن نے کہا کہ کارکنان پر امن طور پر27 اکتوبر کو اسلام آباد کا رخ کریں، کسی بھی منفی پراپیگنڈا کا حصہ نہ بنیں اور اپنی تیاریوں کو تیز کریں۔اجلاس میں سینیٹر مولانا عطاء الرحمٰن ،علامہ راشد سومرو ، مولانا سعید یوسف ، عبداللہ خیلجی ، سینیٹر طلحہ محمود، ایم این اے آغا محمود ، ایم این اے مفتی عبدالشکور ، ڈاکٹر عتیق الرحمٰن اور پیر مدثر تونسوی شریک ہوئے ۔علاوہ ازیں جامع مسجدصدیق بلیوایریامیں پریس کانفرنس اورپارلیمنٹ ہائوس کے باہرمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے جمعیت علما ء اسلام ف کے سیکرٹری جنرل مولاناعبدالغفورحیدری نے کہا کہ مولانافضل الرحمٰن کسی دبا ئوکو قبول نہیں کرینگے ، ہماری جنگ اداروں نہیں بلکہ سلیکٹڈ حکومت کیساتھ ہے جو ہم جیتیں گے ، اگر کسی ادارے نے کسی کو سپورٹ کیا تو اپنی ساکھ کا نقصان کریگا۔ آزادی مارچ کے ہمارے قافلوں کو جہاں روکاگیا وہیں دھرناہوگاپھرپوراملک بندہوگا ۔آزادی مارچ کوروکناحکومت کااحمقانہ فیصلہ ہوگا،18سال سے کم عمربچے آازادی مارچ میں شریک نہیں ہونگے ،ہمیں انتظامیہ کی جانب سے این او سی کی ضرورت نہیں، صرف اطلاع دیتے ہیں،عمران خان کے دھرنے میں شیر خوار اور پانچ سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل تھے ۔اس موقع پرمولاناعبدالمجیدہزاروی ، مفتی عبداللہ ،قاری ہارون رشید اورقاری عبدالکریم بھی موجود تھے ۔ادھر بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلزپارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول نے مزید کہا کہ 18 اکتوبر سے ملک گیر رابطہ عوام شروع کرینگے ۔کٹھ پتلی حکمرانوں کو عوامی مشکلات کا احساس نہیں ، عوام کے جمہوری حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلیں گے ۔ فضل الرحمٰن بھی کٹھ پتلی حکومت کو ڈیڈ لائن دے چکے ہیں ہم انکی سپورٹ کرتے ہیں۔ نالائق اورنا اہل حکومت عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔عوام کے مسائل کیلئے تمام جماعتوں کوساتھ ملکرچلنا ہوگا ، عوامی مسائل کے حل کیلئے جمہوریت کی بحالی ناگزیر ہے ۔ عام آدمی مہنگائی کے سونامی میں ڈوب گیاہے ، بجلی اور گیس سمیت ہر چیز مہنگی کردی گئی ہے ۔ وزیر اعظم عمران نے اپنی پہلی تقریر میں کہاتھا کہ دھرنے کیلئے کنٹینر اور کھانا بھی دونگا، اب عمران خان کو کھانا پکانا شروع کرنا چاہئے اور بریانی کاانتظام کرنا چاہئے کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن نے فیصلہ کرلیاہے کہ جینا ہوگا مرنا ہوگا ،دھرنا ہوگا ، دھرنا ہوگا ۔ یہ مشکل ہے کہ میں خود اس دھرنامیں کوئی کردار ادا کروں۔ ایسا نہیں ہوناچاہئے کہ لوگ اسلام آباد میں بیٹھ کر حکومت کو گھر بھیج دیں، حکومت نے رویہ نہ بدلا تو ہم انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہونگے ، ہم دھرنے کی سیاست کے قائل نہیں پیپلزپارٹی اسکی حمایت نہیں کریگی تاہم مار چ کا قافلہ جہاں سے بھی گزرے گا اس کا استقبال کرینگے سندھ حکومت بھی تعاون کریگی۔ ہم 18 اکتوبر کو شاندار جلسہ کرینگے ، اس ماہ سندھ کا دورہ مکمل کرکے اگلے ماہ پنجاب سے ملک گیر رابطہ عوام مہم کا آغاز کرونگا۔ سلیکٹڈ حکومت سلیکٹرز کو خوش رکھنے میں مصروف رہتی ہیں، جمہوریت کو بحال کرنا مسائل کا واحد حل ہے ۔ اگر حکومت نے جمہوری طریقے نہ اپنائے توراستے نہیں رہتے ، نیب کیلئے ویڈیو ٹیپ تیار ہوتی ہیں۔ لاہور(سٹاف رپورٹر)مسلم لیگ ن کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام (ف)کے آزادی مارچ میں شرکت کا حتمی فیصلہ نوازشریف پر چھوڑ دیا گیا۔گزشتہ روزمسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کا اجلاس مرکزی صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی صدارت میں ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ میں ہوا جس میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں ن لیگ کی شمولیت ،پارٹی تنظیم سازی اور ملکی سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا،ساڑھے تین گھنٹے سے زائدتک اجلاس جاری رہا،تاہم آزادی مارچ میں شرکت کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ن لیگی ذرائع نے اجلاس کی اندرونی کہا نی بتاتے ہوئے کہا کہ صدر ن لیگ شہباز شریف نے جمعیت علماء اسلام (ف)کے آزادی مارچ میں شرکت کی مخالفت کردی جبکہ اجلاس میں شریک سینئر ن لیگی رہنمائوں کی اکثریت آزادی مارچ میں شرکت کی حامی رہی ۔ شہبازشریف کی رائے تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ اور دھرنے میں شرکت کرنے کے بجائے ہمیں اپنا احتجاج کا پروگرام بنانا چاہئے ،ماضی میں مولانا نے ن لیگ کاساتھ نہیں دیا ۔اگر مولانا کے احتجاج میں شریک ہوئے تو اسکا کریڈٹ انکی پارٹی کو ہی جائیگا ،ہمیں اس میں شرکت نہیں کرنی چاہئے ۔ فضل الرحمٰن نہایت قابل احترام ہیں ۔اجلاس کے اختتام تک ن لیگی قیادت کوئی فیصلہ نہ کرسکی اور حتمی فیصلہ قائد نوازشریف پر چھوڑ دیا۔شہباز شریف آج نوازشریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کرینگے جس کے بعد حتمی اعلان ہوگا۔اجلاس کے بعدن لیگ کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے اس بات کی پر زور مذمت کی کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم باہر جاکر ملک کو بدنام کررہاہے ،واحدسربراہ ہے جوملک کو کرپٹ اور منی لانڈرنگ کا گڑھ قرار دے رہاہے ، عمران خان بیمار ذہن کا شخص ہے ، اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنانے کے علاوہ کوئی سوچ نہیں۔ انا ثنااﷲ پر جھوٹا مقدمہ بنایا اب تو تصاویر بھی آ چکی ہیں، منشیات کا مقدمہ جھوٹا ہے ۔نوازشریف مقدمہ کا ارشد ملک ویڈیو میں ثبوت سامنے آ چکا ہے ، ن لیگ عمران خان کے انتقام کا نشانہ بنی ہوئی ہے ۔ اجلاس میں پارٹی نے پی ٹی آئی کے وزرا کی فضل الرحمٰن کیخلاف اشتعال انگیز تقاریر کی مذمت کی ، وزرا کو چاہئے کہ اشتعال انگیز بیانات کے بجائے اپنے پیرو مرشد عمران خان کے کلپ دیکھیں جو دھرنے میں دیتے تھے ۔ عوام کو حکومت نے مہنگائی کاتحفہ دیا۔ شہبازشریف پارٹی کی سفارشات نوازشریف تک پہنچائیں گے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کے دوران پہنچائیں گے جو فیصلہ ہو گا وہ تسلیم کرینگے ۔شہباز، نوازشریف ملاقات کے بعد لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ کیا جائیگا۔