پاکستان اور اسکی پالیسی کے حوالے سے بھی عوام میں خاصی مایوسی ہے۔ کئی افراد نے اس گرو پ کو بتایا کہ ان کو توقع تھی کہ پاکستان کی ایما پر بین الاقوامی برادری یکجا ہوکر بھارت پر نکیل کس کے ان اقدامات کو واپس لینے پراسکو مجبور کردیگی۔ مگر یہ توقعات پوری نہیں ہوسکی ہیں۔ غالب اکثریت کا خیا ل ہے کہ ان کو بے یار و مددگار و اکیلے چھوڑدیا گیا ہے۔ پاکستانی لیڈرشپ کیلئے یہ رجحان لمحہ فکریہ ہے۔ اسکے علاوہ پہلی بار کشمیر ی عوام بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی پیش آنے والے واقعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیے۔ اسکی شاید وجہ یہ ہے کہ دونوں آجکل ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی کشمیری تحریک سے لاتعلقی اور بسا اوقات اسکی شدید مخالفت کی وجہ سے کشمیری مسلمان بھی ان کے سیاسی معاملات سے دور ہی رہتے تھے۔ اس گروپ کے مطابق ایک واحد مثبت قدم جو پچھلے دو سالوں میں اٹھایا گیا وہ ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسلوں یعنی ڈی ڈی سی کے کسی حد تک آزادانہ انتخابات تھے، جس میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے اتحاد کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ یہ انتخابات 5اگست2019کے اقدامات کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان انتخابا ت کو بھارتی حکومت سفارتی سطح پر خوب بھنا رہی ہے۔ مگران نو منتخب ڈی ڈی سی کے اراکین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جنوبی کشمیر کے کولگام علاقہ کے ڈاک بنگلہ میں منتخب ڈی ڈی سی اراکین نے وفد کو بتایا کہ انہیں عوام سے ملنے نہیں دیا جا رہا ہے اور ایک مقامی ہوٹل میں انکو محسور کردیاگیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک جیل میں بندہیں۔ افسران تک ان سے بدکتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں وہ بجلی کا ایک ٹراسفارمر تک ٹھیک نہیں کرا پاتے ہیں۔ حکومت میں کورپشن انتہا پر ہے۔ پہلے بیوروکریٹ کسی سیاسی نظام کے تابع ہوتا تھا، مگر اب یہ لگام ٹوٹ چکی ہے۔ ایک ڈی ڈی سی ممبر عنایت اللہ راتھر نے وفد کو بتایا کہ اسکو بتایا گیا تھا کہ کشمیر ہندوستان کا تاج ہے، مگر یہ تاج آجکل ٹھوکروں کی زد میں ہے۔ اسکا کہنا تھا کہ اسکے علاقے کے کئی نوجوانوں کو حراست میں لیکر بھارت کی دور دراز جیلوں میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے اعزا و اقارب ملاقات کیلئے نہیں جا سکتے ہیں۔ ایک دودھ بیچنے والے شخص ، جس کو اسکی بھاری بھر کم جسمانی ساخت کی وجہ سے مقامی لوگ کرنل ستار کے نام سے پکارتے تھے، کو حراست میں لیکر اتر پردیش کے وارانسی شہرکی جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس شخص کا عسکریت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔ ایک اور ڈی ڈی سی ممبر عباس راتھر کا کہنا ہے کہ ان کو حفاظت کیلئے جو اہلکا ردئے گئے ہیں، و ہ ان کی جاسوسی کرتے ہیں۔ جوں ہی کوئی ان سے ملنے آگیا، و ہ فون پر اپنے اعلیٰ افسران کو باخبر کردیتے ہیں۔ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے عارف زرگر ، جو ڈی ڈی سی کے چیئرمین بھی ہیں ،نے بتایا کہ ڈی ڈی سی دراصل Dumb Driven Cellکا مخفف ہے۔ جن دنوںیہ گروپ کشمیر کے دورہ پر تھا، حکومت نے بتایا کہ حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق ہائوس ارسٹ نہیں ہیں اور کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ اگلے روز یہ گروپ ان کی رہائش گا ہ پر پہنچا۔ مگر سکیورٹی اہلکاروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے دی۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر میں 808کشمیری ہندو یعنی پنڈت خاندان رہتے ہیں، ان لوگوں نے 1990میں دیگر پنڈتوں کی طرح ہجرت نہیں کی۔ مقامی کشمیری پنڈتوں کے لیڈر سنجے تکو نے اس وفد کو بتایا کہ 2011کے بعد مختلف وجوہات کی بنا پر 64خاندان ہجرت کر چکے ہیں۔ اسکے علاوہ 3,900ایسے پنڈت خاندان ہیں، جنہیں جموں سے کشمیر میں نوکری دلوانے کے نام پر لاکر کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ سنجے تکو کے مطابق کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس کے برعکس جموں اور دہلی میں مقیم ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آر ایس ایس) کے پروردہ پنڈتوں کو ان کی آواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس نے حال ہی میں عالمی دارالحکومتوں میں Global Kashmiri Pandit Diaspora (GKPD)کے نام سے ایک نئی تنظیم بنائی ہے تاکہ اسکو عالمی سطح پر کشمیری تارکین وطن کے خلاف کھڑا کرکے ان کے بیانیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ کشمیری پنڈت لیڈروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورمز اور انتخابات کے موقع پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کے نام کا خوب استعمال کرتے ہیں، مگر ان کی فلاح و بہبود کیلئے عملاً کچھ بھی نہیں کرتے ہیں۔ وادی کشمیر میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے وفد کے سامنے اس خدشہ کا اظہارکیا کہ عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flagآپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اسکو بنیاد بناکر ووٹروں کو ہیجان میں مبتلا کرکے وہ ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کاروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ اسمارٹ اسٹی کے نام پر مندروں کی آرائش و تزئین کی جا ررہی ہے، مگر اس میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کر رہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے۔ گروپ کے مطابق آئے دن ہلاکتوں کے باوجود نوجوانوں میں ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے۔ اور عسکری تنظیموں کے اراکین میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ ؎فورسز کی طرف سے مارٹر اورآتش گیر مواد سے مکانات کو زمین بوس کرنے کے نئے سلسلہ نے عوامی ناراضگی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ آجکل جس گھر میں بھی کسی عسکری کے ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، سکیورٹی افواج اسکو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بناکر زمین بوس کرد یتی ہیں۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ایک سرکردہ شخصیت نے اس گروپ کو بتایا کہ چندبرس قبل تک کشمیری مقبول بٹ اور افضل گورو کو اپنے گھروں سے دور تہاڑ جیل میں دفنانے پر ماتم منا رہے تھے، مگر اب کسی بھی عسکریت پسند کی لاش ان کے لواحقین کو نہیں دی جاتی ہے، اور ان کو نامعلوم جگہوں پر دفنایا جاتا ہے۔ فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، نے حال ہی میں سرینگر میں بتایا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔مگر کیا صرف سرحدوں پر امن کے قیام سے پورے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے؟کیا کشمیر میں عوام کا اعتماد اور بھروسہ جیتنا ضروری نہیں ہے؟