یروشلم‘ اے یروشلم‘ شاید مجھے اب پھر کسی صلاح الدین ایوبی کا انتظار ہے جو ہم میں تو نظر نہیں آتا۔ کبھی ہم نے غور کیا برصغیر کے مسلمانوں کے ہیرو کون ہیں اور کیوں ہیں۔ ہم طارق بن زیاد کو سلام کرتے ہیں‘ محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی شان میں مدح سرا ہیں‘ صلاح الدین ایوبی ہمارے لیے ایک لیجنڈ ہیں۔ خلافت راشدہ میں بھی ایک خالد بھی ولید کو چھوڑ کر ہمیں کسی دوسرے کو نہیں جانتے ۔ معلوم ہے اسکی وجہ کیا ہے۔ نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا‘ وہ لوگ تک ہمیں یاد نہیں۔ انہوں نے اس وقت کی دو سپر پاور ایران اور روم کو تاراج کر کے رکھ دیا تھا جن لوگوں کو ہم ہیرو کے طورپر یاد کرتے ہیں‘ ان میں ایک وہ ہیں جنہوں نے برصغیر کو فتح کیا اور دوسرے وہ ہیں جنہوں نے ہسپانیہ کو مسخر کیا۔ اس فتح کو تو ہم نے لیجنڈری مقام دے رکھا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کے بارے میں ہمارا یہ تاثر ہے کہ اس کے مقابل کا کوئی دوسرا تھا ہی نہیں۔ لیکن یہ لوگ ہمارے دلوں میں اس طرح کیوں چھا گئے تھے۔ کیا یہ وجہ تو نہیں کہ برصغیر کی طرح ہمیں ہسپانیہ اور بیت المقدس سے شدید جذباتی وابستگی تھی اور یہ وابستگی ہماری روح کا حصہ ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہمارے مفکر اقبال کی زندگی میں بھی عالم اسلام کے لیے دو زندہ مسائل تھے۔ ایک کشمیر اور دوسرا فلسطین۔ مفتی اعظم فلسطین تک سے اقبال اور قائداعظم کی وابستگی ڈھکی چھپی نہیں۔ میں تاریخ کے جھروکوں میں جانا نہیں چاہتا۔ بتانا یہ ہے کہ یہ وہ نشانیاں ہیں جو ہمارے لیے تاریخ کے روشن مینار ہیں۔ اقبال نے ہسپانیہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے: ہسپانیہ تو خون مسلماں کاامیں ہے مانند حرم پاک ہے تو مری نظر میں یہی نہیں مسجد قرطبہ جیسی عظیم الشان تخلیق بھی اس بات کی یاد دلاتی رہے گی کہ تخلیقی سطح پر بھی ہسپانیہ نے اقبال کو کس طرح متاثر کیا تھا۔ میں ان دوسرے ہیروز کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جنہیں اقبال بھولا نہیں تھا۔ عبدالرحمن الداخل۔ یہ سب کچھ ہماری روح کا حصہ ہے۔ ہسپانیہ کا ذکر آیا ہے تو بتاتا چلوں اقبال نے فلسطین اور ہسپانیہ کا تقابل کس خوبصورتی سے کیا ہے۔ فرماتے ہیں: ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا منطق اور دلیل کے زور پر ایسی جذباتی داستان بنانا کوئی معمولی بات نہیں۔ سو عرض ہے فلسطین کا مسئلہ وہ مسئلہ ہے جو ہمارے خون میں ایسے شامل ہے جیسے صلاح الدین ایوبی ۔اور جن لوگوں کو ہم نے حرز جاں بنائے رکھا‘ ایوبی ان میں سے ایک ہے۔ صرف علامہ اقبال ہی نہیں‘ ہمارے قائداعظم نے بھی فلسطین کو ہمیشہ یاد رکھا اور اپیل کی کہ مسلماں کبھی فلسطین کو نہ بھولیں۔ جب اسرائیل بن رہا تھا تو قائداعظم نے اسی وقت امریکہ کے صدر ٹرومین اوربرطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی کو خط لکھ کر اس فیصلے کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ اس زمانے میں جن لوگوں کو فلسطین کے کازکے لیے باہر جانا پڑتا‘ ان کی شہریت کچھ بھی ہوتی انہیں پاکستان کا پاسپورٹ جاری کردیا جاتا۔ فلسطین ہمیں دل و جاں سے عزیز تھا۔ اس کے باوجود کہ وہاں کی قیادت سے ہم عمومی طور پر خوش نہ تھے‘ مگر ہم نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی۔ ہمارے ہوا باز ان فضائوں میں اڑانے بھرتے اور ہمارے جاں باز ان زمینوں پر معرکے مارتے۔ اس میں بہت سے سوال پیدا بھی ہوئے مگر ہم ایک تسلسل کے ساتھ اس مقصد کے ساتھ رہے۔ شہید ملت لیاقت علی خان نے تو یہ تک کہہ دیا کہ عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو ہم نہیں کریں گے۔ آج بھی ہمارے پاسپورٹ پر دنیا جہاں کا سفر کیا جا سکتا ہے ماسوائے اسرائیل کے۔ اسرائیل ہمارے لیے ایک ایسا نام ہے جیسا ہندوئوں کے ہاں کوئی اچھوت ہوتا ہے۔ اس سب کے باوجود جب سعودی عرب کے شہزادہ (بعد میں شاہ) عبداللہ نے یہ فارمولا پیش کیا کہ اگر اسرائیل مقبوضہ علاقوں سے فلسطین کے حق میں دست بردار ہو جائے تو ہم اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تو ہم نے بھی بادل نخواستہ اس فارمولے کو تسلیم کرلیا اور یہ کہا کہ ہمارا موقف وہ ہو گا جو سعودی عرب کا ہوگا۔ یہ بیل مگر منڈھے نہ چڑھی۔ جسے مغربی کنارہ کہتے ہیں وہ دریائے اردن کا مغربی کنارہ ہے، یہ دراصل اردن ہی کا حصہ ہے۔ اس مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو ملا کر ایک آزاد بندوبست قائم کیا گیا کہ یہ آئندہ کا فلسطین ہوگا مگر خواب کبھی پورا نہ ہوا۔ صرف یروشلم کے بارے میں فیصلہ تعطل کا شکار ہا۔ اس عرصے میں اسرائیل نے مغربی کنارے پر بستیاں تعمیر کرنا شروع کردیں‘ اس نے یروشلم کی آزادحیثیت ختم کرنے کے لیے بھی اقدام اٹھانے شروع کردیئے۔ آج بیت المقدس میں نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلی بار یہ ہورہا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب کو نشانہ بنایا گیا۔ اہل فلسطین صیہونیوں کے خلاف کئی جنگیں مختلف انداز میں لڑ چکے ہیں۔ انتفادہ سے لے کر حزب اللہ کے براہ راست حملے تک جنگ کا اپنا انداز ہے۔ اس وقت ظلم کی انتہا ہے کہ جوبائیڈن کا امریکہ اپنے ملک میں یہودی لابی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے یہ کہہ رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘ وہ سلامتی کونسل میں قرارداد پاس نہیں ہونے دے گا۔ کیا اسے دفاع کہتے ہیں۔ہسپتال‘ سکول اور میڈیا ہائوسز نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر کا ضمیراس پر احتجاج کر رہا ہے مگر امریکہ اسرائیل کو اسلحہ بیچ رہا ہے تاکہ وہ اپنے دفاع کے نام پر مزید ظلم و بربریت کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ جو ملک سب سے زیادہ اسرائیل کے مقابلے میں کھڑاہے اس نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور اس کی اسرائیل سے تجارت بھی ہے۔ 4 ارب ڈالر کی اشیا منگواتا ہے اور پونے دو ارب کی اسے بیچتا ہے۔ پھر بھی وہ ڈٹا ہوا ہے۔ اب کوئی صلاح الدین ایوبی تو نہیں آئے گا۔ خدا کرے اانہی لیڈروں میں سے کوئی راستہ نکال سکے۔ یہ سب مل کر اجتماعی قیادت کی شکل میں کچھ کر سکیں۔ یہ مسئلہ مرنے والا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سامراج بھی چاہتا ہے کہ اس کا کوئی حل نکلے۔