پاکستان کی موجودہ سیاسی رسہ کشی اور کشمکش کے مختلف پہلوؤں پر نظر دوڑانے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ حالات کو سنبھالا دینے کے لئے اور سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لئے ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اتفاق رائے پیدا کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس ضمن میں کوئی بات کرنے سے پہلے اس بات کا احاطہ کرنا یا سمجھنا ضروری ہے کہ ایسے حالات ہی کیوں پیدا ہوئے اور کس نے پیدا کئے؟ 13 جماعتی اتحاد کے ذہنوں کا خوف اور الیکشن سے فرار دو ایسے نکات ہیں جو انتشار کی بنیاد بنے۔ تحریک انصاف کی عوامی پزیرائی، مقبولیت اور اس ضمن میں مختلف اوقات میں کئے جانے والے سروے کے مطابق پی ٹی آئی کو تمام جماعتوں سے آگئے اور مقبول ترین جماعت ظاہر کیا گیا ہے۔ اس بات ان تمام اقدامات کے ذریعے واضح ہے جو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کی آئینی بندش اور الیکشن کا انعقاد ایک آئینی ضرورت تھی اور اس آئینی ضرورت کو بالائے طاق رکھنے کے لئے الیکشن کمیشن جیسے قومی ادارے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اور سپریم کورٹ کی ہدایات کو نظر انداز کرکے اس المیہ کو مزید پروان چڑھایا اور بحران پیدا کیا گیا۔ عدلیہ اور حکومت دست و گریباں دکھائی دینے لگے نامکمل اور ادھوری پارلیمنٹ کو ڈھال بنایا گیا اور عدلیہ کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ محاذ آرائی اپنے عروج تک پہنچائی گئی اور یہ مفروضہ پروان چڑھایا گیا کہ عدلیہ غیر جانبدار نہیں ہے اور اپنی خواہش کے جج صاحبان اور بینچ مسّیر نہیں اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے ڈنڈا بردار حرکت النصار پھر مریم نواز کی سربراہی میں گیٹ پھاڑ پھلانگ کر سپریم کورٹ کے سامنے جج صاحبان کے نام کو موضوع بناکر مْغضلات بکتے رہے۔ عدلیہ کو لتاڑا گیا تاریخ کی سب سے لمبی اور بے ترتیب تقریر مریم نواز نے کی اور اپنے استدلال میں اعلان فرمایا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے توہین عدالت کی۔ مولانا فضل الرحمن کا لب ولہجہ بڑا دھمکی آمیز تھا اور وہ سپریم کورٹ کی عمارت کی حفاظت کا اعلان کرتے رہے مگر دوسری طرف جج صاحبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کرتے رہے انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ تب تک دھرنے سے نہیں آٹھیں گئے جب تک کہ چیف جسٹس استعفیٰ نہیں دیتے۔ ان کی دھمکیوں کے باوجود چیف جسٹس اپنی کرسی پر براجمان رہے اور اطمینان کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔مولانا فضل الرحمن کی ساری باتیں بیکار اور دھری کی دھری رہ گئیں انہوں نے نادیدہ وجوہ کی بنا پردھرنا اچانک ختم کرنے کا اعلان کیا یہ سلسلہ تو جاری رہا لیکن پی ٹی آئی کے ورکروں پر کریک ڈاؤن کا لامتناہی سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مرد تو درکنار خواتین کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے حتٰی کہ بیمار خواتین لیڈران شیری مزاری ،یاسمین راشد،فلک ناز اور دیگر کو ہائی کورٹ کی ضمانتوں کے باوجود دوبارہ گرفتارکرلیا گیا ہے 10 ہزار کے قریب سیاسی کارکن گرفتار ہیں اور یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے اور اب عمران خان کو کہا جا رہا ہے کہ 50 دہشت گرد جو زمان پارک میں موجود ہیں اور انہیں پولیس کے حوالے کیا جائے یہ وارننگ پنجاب کے وزیر اطلاعات نے دی ہے جن کی اپنی پوزیشن غیر قانونی ہے۔ اس مجموعی پس منظر میں دو اہم ڈویلپمنٹس یا میٹنگز ہوئی ہیں ایک کور کمانڈرز کی اور ایک قومی سلامتی کونسل کمیٹی کی میٹنگکی ان دونوں میٹنگز کے اعلامئے میں آخر میں ایک انتہائی اہم بات ہوئی ہے کہ پاکستان کو اس وقت سیاسی قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اس موقف کو پاکستان کی عدلیہ کی حمایت حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے حکومت اور پی ٹی آئی دونوں فریقین کو ایک سیاسی مکالمے اور مزاکرات کو منتقی انجام تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔ فوج اور عدلیہ کا یکساں موقف ایک خوش آئند بات ہے ان اندھیروں اور مایوسیوں میں یہ ایک امید کی کرن ہے لیکن پاکستان کی سب بڑی جماعت پی ٹی آئی اور سب سے مقبول لیڈر عمران خان اور قومی رائے کو باہر رکھ کر عوام کی خواہشات کے برعکس فیصلوں کا ادارک سب کو ہونا چاہئے اسی صورت میں عمران خان کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا اور لچک پیدا کرنی ہو گی اور پاکستان کے وسیع تر مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا پاکستان کے سب خیر خواہ پاکستان کا استحکام چاہتے ہیں اور اوورسیز پاکستانی اس ریاست کو قابل رشک دیکھنا چاہتے ہیں۔