زندگی واپس لینے کا اختیار بھی زندگی دینے والے نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ تاہم زندگی بچانے کے لیے انسانوں کو سر توڑ کوشش کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نہایت حکیمانہ فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کی حومت نے میاں نوازشریف کی بیماری کو غیر سنجیدہ انداز میں لیا اور انہیں کبھی اس ہسپتال میں کبھی اس ہسپتال میں کبھی ایک بورڈ کے پاس کبھی دوسرے بورڈ کے پاس پیش کیا اور پھر جس تضحیک آمیز انداز میں ان کی بیماریوں اور ان کے اکل و شرب کے بارے میں سابق وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے میڈیا پر گفتگو کی اس سے تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی حکومت کے بارے میں نہایت ناخوشگوار تاثر ابھر کر سامنے آیا۔ اس دوران پی ٹی آئی نے ریگولر اور سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی کہ پارٹی اِز اوور یعنی مسلم لیگ ن کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ آٹھ نو ماہ کے دوران تحریک انصاف نے اپنی حکومت کو ماضی کی ناقص کارکردگی کے حوالوں اور مستقبل کے خوش نما وعدوں سے زندہ رکھا۔ جہاں تک حال کا تعلق ہے تو وہ بے حال ہے۔ غریبوں سے پوچھیں، سفید، پوشوں سے پوچھیں، چھوٹے بڑے بزنس مینوں سے پوچھیں اور پاکستان کی ساٹھ ستر فیصد آبادی سے پوچھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پہلے کے مقابلے میں عوام الناس کی زندگی بہت ہی تلخ ہے۔ ملک کی اقتصادی صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے مگر وزیر خزانہ کو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ وہ ہر وقت مسکراتے رہتے ہیں اور عمران خان اور قوم کو یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ سب اچھا ہے جبکہ سب بالکل اچھا نہیں۔ کبھی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، کبھی کہا کہ دوستوں اور پاکستانیوں کی طرف سے ڈالروں کی برکھارت آئے گی اور کبھی کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس ان کی شرائط پر نہیں اپنی شرائط پر جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو معلوم ہونا چاہیے کہ حکومت کی معاشی میدان میں کارکردگی جتنی خراب ہوتی جائے گی قوم کے دلوں میں مسلم لیگ ن کے ’’سنہری ایام‘‘ کی یاد اتنی ہی جلوہ گر ہوتی جائے گی۔ قوم کی چیخیں تو پہلے ہی بلند ہورہی ہیں۔ اب آئی ایم ایف والے قصہ زمیں برسر زمیں نمٹانے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔ انہوں نے تازہ ترین ہدایات یہ دی ہیں کہ روپیہ آزاد کرو، بجلی، گیس مہنگی کرو اور مختلف شعبوں کو دی جانے والی کیش سبسڈی ختم کرو۔ پاکستان آئے ہوئے آئی ایم ایف مشن کے سربراہ رمریز ریگو نے وزیر خزانہ اسد عمر، چیئرمین ایف بی آر جہاں زیب اور مشیر تجارت عبدالرزاق دائود سے الگ الگ ملاقاتیں کی اور ٹیکس اصلاحات، ٹیکس اہداف میں کمی اور آنے والے پاکستانی بجٹ پر ناقدانہ تبادلہ خیال کیا اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر من و عن عمل کرنے پر زور دیا۔ تحریک انصاف کی معاشی اور انتظامی حسن کارکردگی کا یہی حال رہا تو وہ اور کتنا عرصہ عمران خان کی ’’کرشماتی شخصیت‘‘ کے سہارے نکال سکے گی۔ پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی تو عمران خان کا ماٹو تھا کہ توہین زندگی ہے سہاروں کی زندگی اب پی ٹی آئی قدم قدم پر اس توہین زندگی کی مرتکب ہورہی ہے اور جہاں سے کوئی سہارا ملتا ہے تو وہ اس کی طرف لپکتی ہے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ پہلے ہی گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس اضافے سے غریب کلاس ہی نہیں ایلیٹ کلاس بھی بلبلا اٹھی ہے۔ اب بتایا جارہا ے کہ مزید 144 فیصد تک گیس کی قیمت بڑھائی جائے گی۔ بجلی کی قیمت میں 2 روپے فی یونٹ اضافے کی خبریں بھی منظر عام پر ہیں۔ جب حکومت آئی تھی تو ایک سو روپے کا ایک ڈالر تھا اب 141 روپے کا ایک ڈالر ہے اور اگر آئی ایم ایف کی ہدایت پر عمل درآمد کر کے روپے کو ’’آزاد‘‘ کرتے ہیں تو پھر بیچارا روپیہ ٹکے ٹوکری ہو جائے گا۔ شاید جناب عمران خان کو اقتصادی صورت حال کی سنگینی کا کسی حد تک ادراک ہو گا مگر وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں ان کی اقتصادی ٹیم معیشت کا میچ جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست معیشت کا چیلنج اسد عمر کی ہمت سے آگے کی بات ہے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اسد عمر اکثر اوقات کوچہ معیشت چھوڑ کر کوچہ سیاست میں نکل آتے ہیں اور یہاں اپنی خطابت کا جادو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھائی! آپ وہ کام کریں جو آپ کے سپرد کیا گیا ہے۔ اب ذرا اپنے سٹیٹ بینک کی گواہی بھی لے لیں۔ سٹیٹ بینک نے دوسری سہ ماہی کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی ہدف سے بہت زیادہ ہوگی۔ مالیاتی خسارہ قابو سے باہر ہوگا۔ مہنگائی کا طوفان روپے کی قدر میں کمی اور پٹرولیم کی قیمتیں بڑھنے سے آیا۔ افراط زر 7.5 فیصد ہوگا۔ شرح نمو 6.2 فیصد کی بجائے 3.5 سے چار فیصد تک رہے گی۔ یہ ہے اپنے گھر کا وہ آئینہ کہ جس نے بڑے رکھ رکھائو کے ساتھ حکومت کو ان کا اقتصادی چہرہ دکھایا ہے۔ تحریک انصاف اور ملکی معاملات سے دلچسپی رکھنے والے دیگر اداروں کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ مصنوعی طریقے سے کوئی پارٹی ختم ہوتی ہے اور نہ ہی اسے ختم کرنا چاہیے۔ جیسے کوئی نئی بستی بستے بستے ہی بستی ہے اسی طرح سیاسی پارٹیوں کے روٹس عوام میں بڑے گہرے ہونے کے لیے اک عمر چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں کی انتہائی میں کمی بیش ہوتی رہتی ہے یا کچھ ٹیکنیکس سے لائی جاتی ہے مگر پارٹیوں کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جا سکتا اور نہ ہی ایسا کرنا کسی بھی سیاسی اعتبار سے کوئی عمل خیر ہے۔ البتہ اس وقت پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں کہ جن میں مسلم لیگ ن تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی ہیں کو ’’ون مین شو‘‘ سے باہر آنا ہوگا۔ یہ جماعتیں ملک میں تو جمہوریت جمہوریت کاراگ الاپ رہی ہیں مگر ان کی اپنی پارٹیوں میں پارٹی لیڈر شپ کے لیے کوئی جمہوری انتخابی طریق کار موجود نہیں۔ تحریک انصاف ابھی تک انتخابی مہم کے کلچر پر عمل پیرا ہے ہر روز ’’ملکی تاریخ میں پہلی بار‘‘ کا اشتہار آویزاں کیا جاتا ہے۔ حکومت نے پہلے ہی وار میں غریب تو مکا دیئے ہیں اب ملکی تاریخ کا سب سے بڑا غربت مٹائو پروگرام پیش کیا جارہا ہے۔ اسی طرح کے دلآویز اعلانات کو چھوڑیئے سنجیدگی سے اپنی سابقہ کمٹ منٹس پوری کیجئے۔ آپ نے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا ان کا کیا ہوا۔ جیل میں انسان کا دل موم ہوتا ہے۔ کوئی کتنا بڑا نواب یا سیاسی لیڈر کیوں نہ ہو جیل میں قیدی ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف کو وہاں زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ہو گا۔ اب وہ چھوٹی جیلوں اور بڑی ملکی جیل کے قیدیوں کی بہتری اور اپنی پارٹی کو حقیقی عوامی پارٹی بنانے کے لیے انقلابی تجاویز لائیں۔ عدالت کے حکیمانہ فیصلے سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے علاج پر نہیں پرہیز پر بھی توجہ دیں۔