مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیم جموں اینڈ کشمیر کولیشن سول سوسائٹی نے سری نگرمیںاپنی سالانہ رپورٹ کو شائع کیا۔ اپنی رپورٹ میں کولیشن نے سال2018ء کو گزشتہ ایک دہائی کا سب سے خونی سال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں قابض بھارتی فوجی اہلکاروں کی کھلی سفاکیت سے 160عام شہری،267مجاہدین شہیدجبکہ اس دوران قابض بھارتی فوج کے 159اہلکار واصل جہنم ہوگئے۔سری نگرمیںجموں اینڈ کشمیر کولیشن سول سوسائٹی نے 31دسمبر2018ء کواپنی سالانہ رپورٹ شائع کردی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال رفتہ میں فورسز اور پولیس کے ساتھ خونین معرکہ آرائیوں میں 267 کشمیری مجاہدین شہیدہوئے جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ نقصان ہے۔خیال رہے ان اعدادوشمارمیں وہ کشمیری نوجوان شامل نہیں ہیں کہ جنہیں گھروں ،سڑکوں اورچوک چوراہوں سے گرفتارکرکے مبینہ طور پر جنگ بندی لائن پرلے جاکرقابض بھارتی فوجی اہلکاروں نے جعلی جھڑپوں کاڈھونگ رچاکرشہیدکرڈالا۔ مقبوضہ کشمیرمیںانسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم جموں اینڈ کشمیر کولیشن سول سوسائٹی کی رپورٹ میں بتایاگیاکہ مقبوضہ کشمیرمیںسال2018ء میں123عام شہریوں کی شہادتیں واقع ہوئیں،جن میں 20خواتین اور باقی مرد شامل ہیںیہ سب کے سب قابض بھارتی فورسز کی راست فائرنگ اورپیلٹ گن کے استعمال کے نتیجے میں شہید ہوئے۔ قابض بھارتی فوج نے جنوبی کشمیر کے دواضلاع شوپیاں اورپلوامہ میں سب سے زیادہ85عام شہریوں کو گولیوں کو نشانہ بنایاجبکہ شمالی کشمیر میں24اور وسطی کشمیر میں13عام شہری شہیدہو گئے۔ رپورٹ میں ضلع سطح پر کشمیری مسلمانوں کی شہادتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وادی کشمیرمیں سب سے زیادہ شہریوں کی شہادتیں پلوامہ میں واقع ہوئیں،جن کی تعداد 28تھی،جبکہ ضلع کولگام میں26اور شوپیاں میں 24کے علاوہ ضلع اسلام آبادمیں7 عام شہری بھارتی فوج کی بربریت کے باعث شہید ہوئے۔ وسطی کشمیر کے ضلع سرینگر میں7 جبکہ گاندربل میں 2 اور بڈگام میں بھی4 عام شہریوں کے شہادتیں واقع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر میں ضلع بارہمولہ میں قابض بھارتی فوج کی سفاکیت کے باعث سب سے زیادہ14عام شہری شہیدہو گئے،جبکہ ضلع کپوارہ میں4اور بانڈی پورہ میں بھی گزشتہ برس کے دوران7 عام شہریوں کے شہید ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کولیشن آف سول سوسائٹی کی طرف سے سال 2018ء کے آخری روز منظر عام پر لائی گئی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال2018ء کے مئی میں سب سے زیادہ28 عام شہریوں کو بھارتی فوج نے گولیاں مار مار کر شہیدکردیا،جبکہ نومبر میں سب سے زیادہ شہادتیں واقع ہوئیں،جن کی تعداد61تھی،جبکہ اکتوبر میں بھی57افراد شہید ہو گئے،جن میں عام شہری اورمجاہدین بھی شامل تھے جبکہ بھارتی قابض فوج کے کئی اہلکاربھی واصل جہنم ہوگئے۔رپورٹ کے مطابق 2018ء میں 18بھارتی سفاک فوج کے ہاتھوںخواتین اور 31بچوں کی شہادتیں بھی واقع ہوئیں،جبکہ شہری اموات میں 20فیصد اضافہ ہوا،جو گزشتہ ایک دہائی میں سے زیادہ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سال2018ء میں275محاصروں اورخونین آپریشن ہوئے، جبکہ قابض فوج اور مجاہدین کے درمیان 143خونین معرکے ہوئے اور اس عرصے میں کشمیری مسلمانوں کے 120 مکانات کوبھی بھارتی فوج نے آگ لگاکر بھسم کر دیا، جبکہ94مکانات جزوی طور پر نقصانات سے دو چار ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال2018ء میں108بارقابض بھارتی فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں سوشل میڈیااور انٹرنیٹ سروس کو بند کیا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال2018ء میں20قابض بھارتی فوجی اہلکاروں نے از خود اپنی زندگی کا خاتمہ بھی کیا۔رپورٹ کے آخرمیںکہا گیا ہے کہ گزشتہ10برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں1088قابض بھارتی فوجی اہلکارمجاہدین کشمیرکانشانہ بن کرواصل جہنم ہوگئے۔ سری نگرسے شائع ہونے والی ایک اور رپورٹ کے مطابق 2018ء میں قابض بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں میں 4524شہری زخمی ہوگئے جن میں 724افراد کی آنکھوں کی بینائی پیلٹ فائرنگ سے متاثر ہوئی۔واضح رہے شوپیاں میں02 اپریل 2018 ء کو تقریباً ایک ہی دن میں63 شہریوں کو زخمی کیا گیاجبکہ 25نومبر کو شوپیاں میں ہی محض19 ماہ کی شیر خوار بچی کی ایک آنکھ پیلٹ فائرنگ کے نتیجے میں متاثر ہوئی۔جبکہ 2018 ء میں تقریبا 5600 نوجوانوں کو گرفتار کیا گیاجن میں سے پیشتر کو PSA کے ظالمانہ ایکٹ کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت کی کئی جیلوں میں مقید کیا گیا۔اس کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبہ کے لوگوں خصوصاً صحافیوں کے ساتھ قابض بھارتی فوج کی جانب سے تشدد کے واقعات کو بھی قلم بند کیا گیا ہے۔ قابض انتظامیہ نے 2018 طاقت اور تشدد کے بل پر متعدد بار اعلانیہ اور غیر اعلانہ طور کرفیو ، پابندیاں اور انٹرنیٹ پر قدغن عائد کیں۔جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق2018ء میں ریاست جموںوکشمیرکوجبری طورپر تقسیم کرنے والی جنگ بندی لائن پردونوں ممالک کی فوجوں کی فائرنگ کے نتیجے میں آزاد کشمیر کے 27 معصوم افراد بھی جاں بحق ہوئے۔ جبکہ 2018ء میں سری نگرکی تاریخی جامع مسجد سرینگر میں 16بار نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت طاقت کے بل پر نہیں دی گئی ۔