آج جبکہ 2019ء تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہو رہا ہے تو وزیر اعظم عمران خان کے اس ٹوئٹ نے دکھ پہنچایا جس میں انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزراء اعلیٰ کو ہدایت کی کہ وہ لوگوں کو سردی سے بچائیں اور پناہ گاہوں میں جگہ نہ ہو تو اضافی پناہ گاہوں کا فوری بندوبست کریں، پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان دو صوبوں کے نہیں ملک کے وزیر اعظم ہیں اور سردی کی لہر پورے ملک میں ہے، مزید یہ کہ وزیر اعظم نے عوام سے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں ، مشکل وقت میں مدد سے انکار نہیں مگر پناہ گاہوں اور دسترخوان کا تصور پاکستان کے عوام کی انا خودداری اور وقار کے خلاف ہے۔ 2019ء کی بہت سی یادیں ہیں جن میں افراط زر اور ڈالر کے ریٹ میں اضافہ، غربت اور بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ساتھ یہ واقعات کہ 29 نومبر، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ، پارلیمنٹ 6 ماہ میں قانون سازی کرے، سپریم کورٹ کا حکم ۔ اس کے ساتھ 18 دسمبر ، پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم، فیصلے پر حکومت کی طرف سے غم و غصے کا اظہار جبکہ اپوزیشن نے اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کی حمایت سے جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے کراچی سے لانگ مارچ شروع کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا مولانا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسی دسمبر میں عمران خان کو گھر بھیجیں گے مگر وہ خود گھر جا بیٹھے۔ اگر میں اپنے وسیب کی طرف آئوں تو بہت سے دلدوز واقعات 2019ء میں پیش آئے جن میں 20 جنوری، مقابلے کے نام پرقتل عام، سی ٹی ڈی نے ساہیوال کے قریب خاتون، بچی سمیت 4 افراد مار دیئے، سانحہ کی اطلاع ملنے پر والدہ بھی چل بسیں، وزیر اعلیٰ کے حکم پر تمام اہلکار گرفتار، تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم، وزیر اعظم نے بھی رپورٹ طلب کر لی۔ گاڑی میں موجود افراد کے پاس اسلحہ موجودنہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے فائرنگ کی، عینی شاہدین، چچا کی شادی میں شرکت کیلئے بورے والا گائوں جا رہے تھے، والد نے پولیس والوں سے کہا ہمیں معاف کر دو لیکن انہوں نے فائرنگ کر دی جس سے میرے والد، والدہ، بڑی بہن اور والد کا دوست جاں بحق ہو گئے، بچے کی گفتگو۔دکھ اس بات کا ہے کہ حکمرانوں کے انصاف کے دعوئوں کے باوجود انصاف نہیں ملا۔ 3 جون،ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ساہیوال میں اے سی خراب ہونے پر 8 بچے جاں بحق، بچوں کی ہلاکت پر والدین اور لواحقین کا احتجاج، وزیر اعلیٰ نے تحقیقات کا حکم دیا مگر ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ 22 جولائی ،ڈیرہ اسماعیل خان چوک پر فائرنگ، ہسپتال میں خود کش حملہ 10 افراد شہید، موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے صبح 8 بجے کوٹلہ سیداں پولیس چیک پوسٹ پر فائرنگ کی، جس سے دو اہلکار شہید ہوئے، لاشوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کرتے وقت ٹراما سنٹر کے باہر موجود دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔وسیب کے اضلاع ڈی آئی خان و ٹانک وزیرستان سے ملحقہ ہیں وہاں کے حالات و واقعات کا اثر وسیب میں محسوس کیا جاتا ہے، 9 جون، شمالی وزیرستان بم دھماکے میں 22 جوان شہید، دھماکہ بویہ دیگان میں فورسز کی گاڑی کے قریب ہوا۔اہل وطن دہشت گردوں کی ان کارروائیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاک فوج کے جوان دہشت گردی کے خلاف مسلسل قربانیاں دیتے آرہے ہیں 28 جولائی، شمالی وزیرستان ، بلوچستان، دہشت گردوں کے حملے میں کیپٹن سمیت 10 جوان شہید، شمالی وزیرستان کے علاقے گرباز میں سرحد پار سے دہشت گردوں نے پاک فوج کی پٹرولنگ پارٹی پر فائرنگ کی جس سے 6 جوان اور تربیت میں ایف سی اہلکاروں پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے کیپٹن سمیت 4 جوان شہید ہو گئے۔13 نومبر ، شمالی وزیرستان، بارودی سرنگ پھٹنے سے پاک فوج کے 3 جوان شہید ایک زخمی ہو گیا۔ 12 جولائی، صادق آباد ، مسافر ٹرین کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی، 21 افراد جاں بحق، 95 زخمی ہوئے۔ہزار دعوئوں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سے وزیر ریلوے شیخ رشید نے وزارت سنبھالی ہے حادثات میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ یکم نومبر، رحیم یار خان ، تیز گام ایکسپریس میں آتشزدگی 85 مسافر زندہ جل گئے، آگ گیس سلنڈر سے لگی، شیخ رشید، دھماکے کی کوئی آواز نہیں سنی، شارٹ سرکٹ آتشزدگی کا باعث بنا، عینی شاہدین، کراچی سے راولپنڈی جانیوالی تیز گام ایکسپریس نانوری سٹیشن کے قریب پہنچی تو اس میں آگ بھڑک اٹھی، جس نے بوگی نمبر 3، 4 اور 15 کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، تینوں بوگیوں میں رائیونڈ تبلیغی اجتماع میں جانے والے افراد سفر کر رہے تھے۔ اتنے حادثات کے باوجود وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ یا کابینہ کا کوئی رکن جائے حادثہ پر نہ پہنچا جس پر وسیب کے لوگوں نے کہا کہ کہ آج اگر ہمارا صوبہ ہوتا تو اس طرح کی بے چارگی اور لاچارگی دیکھنے میں نہ آتی۔ 22 دسمبر ، جسٹس گلزار احمد نے 27ویں چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھا لیا، وزیر اعظم اور مسلح افواج کے سربراہوں کی ملاقات۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سردار آصف سعید کھوسہ کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم احمد خان بھی ریٹائرڈ ہو گئے ہیں، کھوسہ صاحب کا تعلق ڈی جی خان اور سردار شمیم خان کا سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سے تھا۔ ملتان ہائیکورٹ کے سابق صدر سید اطہر بخاری کے مطابق دونوں جج صاحبان کا وسیب سے تعلق ہونے کے باوجود وسیب کی محرومی کے حوالے سے کوئی ریلیف یا انصاف نہیں ملا۔ حالانکہ بار کی طرف سے مطالبہ کیا جا تا رہا کہ سابقہ ادوار میں ججز و ہائیکورٹ کے عملہ کی تعیناتیوں میں وسیب کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور ریکارڈ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ سابق دور میں ججز و دیگر عملہ کی تعیناتیوں میں وسیب سے بے انصافی ہوئی مگر افسوس کہ وسیب کو انصاف وسیب سے تعلق رکھنے والے جج صاحبان نے بھی نہیں دیا۔ روزنامہ 92 نیوز ملتان نے آج فرنٹ پیج پر شہ سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی کہ یکم جولائی 2019ء کو ملتان سب سول سیکرٹریٹ کا وعدہ پورا نہ کیا جا سکا۔ اسی طرح یہ سال بھی وعدوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ تحریک انصاف بہت جلد صوبہ بنائے گی۔ اسی سال وسیب میں بہت افسوسناک واقعات رونما ہوا جن میں اسلام آباد میں سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل کے طلبہ کی گرفتاری، گھر میں کام کرنے والی مخدوم خسرو بختیار کے حلقے سے تعلق رکھنے والی جواں سال دوشیزہ کا زیادتی کے بعد قتل، ہیڈ راجکاں چولستان میں چودھری طارق بشیر چیمہ کی ایماء پر قدیم سرائیکی آبادی کو مسمار کرکے خواتین تشدد کے ساتھ ساتھ جھنگ کے بہت بڑے سنگر طالب حسین درد اور ریڈیو پاکستان ملتان کی فوک سنگر نسیم سیمی اور چشمہ میانوالی کے بہت بڑے لکھاری حامد سراج اور ڈی جی خان کے افضل ندیم افضل کی وفات شامل ہے۔ دعا ہے کہ آنیوالا سال ملک و قوم کیلئے خوشیوں کا سال ثابت ہو۔