آخر مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے ہیں؟ سہارنپور کے مدرسہ مظاہر العلوم میں استاد اور جید عالم مولانا شاہد الحسینی کا کہنا ہے کہ فسادات یا عدم تحفظ کے احساس سے زیا دہ مسلمانوں کے خلاف نظریاتی یلغار سے وہ خوف زدہ ہیں۔ ’’ایسے حالات بنائے گئے ہیں، جہاں میڈیا حکومت کی شہ پر مسلمانوں اور ان کی شریعت کو عفریت بنا کر پیش کر رہا ہے۔پارلیمنٹ کے پچھلے اجلاس میں کسی بھی عالم یا فقہ سے متعلق ادارہ سے مشورہ کئے بغیر تین طلاق پر پابندی اور اسکو جرم کے زمرے میں ڈال کر بل پاس کیا گیا۔‘‘ جبکہ بھارت میں اسلامک فقہ اکیڈیمی جیسا ادارہ بھی موجود ہے، جس کی خدمات کئی ممالک اپنے ہاں مسلم پرسنل لاء کو ترتیب دینے کیلئے حاصل کر چکے ہیں۔ اسکے علاوہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران کئی صوبائی حکومتوں نے اسکولوں میں پڑھائی شروع کرنے سے قبل سوریہ نمسکار (سورج کی پوجا) اور یوگا کو لازمی قرار دیا ہے۔سوریہ نمسکار تو براہ راست مسلمانوں کے عقیدے سے متصادم ہے۔ اسی طرح بریلی میں خانقاہ رضویہ کے متولی محمد منان رضا خان کا کہنا ہے کہ ایک طرح سے خاموشی کے ساتھ مسلمانوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ ملک سے کوچ کریں۔2014ء کی انتخابی مہم کے دوران وزیرا عظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ اس وعدے کا ایفا نہیں کر سکے۔عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ انہوں نے مسلمانوں کے پیٹ پر بھی لات ماری ۔ کالے دھن پر چوٹ کرنے کے نام پر نوٹ بندی کے فیصلہ نے چھوٹے تاجروں اور کاریگروں کے طبقہ کو بے حال کردیا۔ اترپردیش میں فرنیچر، لکڑی پر نقاشی، برتن اور شیشے سازی، قالین بافی و تالے اور چاقو بنانے کی صنعت میں کاریگر اکثر مسلمان ہی ہیں۔ یہ صنعتیں نوٹ بندی کے شاک سے ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہیں۔ مگر بی جے پی کے لیڈران کا کہنا ہے کہ مودی نے اپنے دور حکومت میں اردو زبان کی ترویج کے بجٹ میں 88فیصد کا اضافہ کیا ہے۔کانگریس کے دور اقتدار میں اسکا بجٹ 1.7بلین روپے تھا ، جو اب 3.3بلین روپے کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی بدحالی کے ذمہ داران کو پہچاننا چاہئے۔ بی جے پی نے تو ملک پر دس سال سے زیادہ حکومت تو نہیں کی ہے۔ سیکولر پارٹیوں نے 60 سے زائد عرصہ تک حکومت کرکے مسلمانوںکا کونسا بھلا کیا ہے؟ ویسے بھارت میں دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں ہمیشہ سے ہی اتنی شدید مسلم مخالف نہیں ہوتی تھیں۔مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر مولانا اختر الواسع کے بقول 1984ء کے انتخابات میں محض دو نشتوں پر سمٹنے کی وجہ سے بی جے پی ہراساں ہوگئی اور اسنے سخت گیر ہندو تو کو سیاسی ایجنڈہ کے طور پر اپناکر مسلمانوں کو کنارے کردیا۔ ورنہ اسکے پیش رو بھارتیہ جن سنگھ نے کئی اعلیٰ عہدوں پر مسلمانوں کو فائز کیا تھا۔ مشہور اردو ادیب امداد صابری جن سنگھ کی ٹکٹ پر دہلی کے مئیر بن گئے تھے۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی جن سنگھ کی دہلی یونٹ کے نائب صدر تھے۔ ایمرجنسی کے بعد اندراگاندھی کو ہرانے کیلئے مسلمانوں نے 1977ء کے انتخابات میں جن سنگھ کو کامیاب کروایا تھا۔ چونکہ انتخابی گہماگہمی اب اختتام پذیر ہو رہی ہے، مسلمانوں اور بی جے پی کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں کو احساس ہونا چاہئے کہ آبادی کے ایک بڑے حصہ کو ہمیشہ خوف کی نفسیات میں مبتلا نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ جنوبی آئر لینڈ کی امن مساعی کے خالق لارڈ پیٹرسن کا کہنا تھا کہ اگر چھوٹی سی محض 2فیصد اقلیت بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ اورسسٹم سے باہر محسوس کرے، تو وہ قومی سلامتی کیلئے ہمہ وقت خطرہ کا باعث ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو بھی ایک طرح سے محاصرہ کی ذہنیت سے باہر نکلنے اور اپنے لیڈروں پر بھی بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ انکو کسی کا ایجنٹ قرار دیکر انکی خود اعتمادی کو زک پہنچائیں۔ سیاسی پارٹیوں کیلئے لازم ہے کہ تعمیر و ترقی کے ایشوز کو لیکر ہی ووٹ حاصل کریں، تاکہ کوئی کمیونٹی عدم تحفظ کے احساس کو لیکر منفی ووٹ ڈالنے کیلئے پولنگ بوتھ تک نہ جائے۔ (ختم شد)