علیم خان کی گرفتاری’’توازن‘‘ برقرار رکھنے کے لیے ایک رسمی کارروائی ہے یا واقعی غیر جانب دارانہ احتساب کی طرف ایک بڑا قدم ہے؟ قومی اسمبلی کے سپیکر وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں یا دنیائے انصاف کی تاریخ میں ایک بلند مقام کے لیے کوشاں ہیں؟ تحریک انصاف کے جو وابستگان ٹکٹوں سے محروم ہوئے یا ٹکٹ لے کر ظفریاب نہ ہو سکے انہیں اب ادارے سونپے جا رہے ہیں۔ یہ خبر درست ہے یا محض افواہ ہے؟ دبائو سے مجبور ہو کر شہباز شریف پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی سے مستعفی ہوتے ہیں یا نہیں؟ یہ سب تو اس ملک میں ہوتا رہے گا۔ مگر یہ اصل پاکستان نہیں۔ یہ محض پاکستان کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو اخباروں کی شہ سرخی بنتا ہے اور جس کے بارے میں بنائو سنگھار سے لدی اینکرائیں اور روپوں کے تھیلوں سے بھری خود اعتمادی سے گردنوں کو بلند رکھنے والے اینکر چوبیس گھنٹے سکرین پر رہتے ہیں۔ اصل پاکستان وہ ہے جہاں اینکر جاتے ہیں نہ اینکرائیں! جہاں وزراء قدم رنجہ فرماتے ہیں نہ بیورو کریٹ!آئیے! اُس اصل پاکستان کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیے! جس اصل پاکستان کو کوئی ضیاء الحق، کوئی بھٹو، کوئی پرویز مشرف، کوئی شریف، تبدیل نہیں کر سکا۔ اور کوئی عمران خان بھی جس کا بال بیکا نہیں کر پائے گا۔ یہ خیر پور ہے۔ ایک سابق وزیر کے بھانجے نے ایک کسان کی بیٹی کو کاروکاری کے الزام میں قتل کر دیا ہے۔ مقدمہ درج ہوا تو مقتولہ کے ماں باپ بھی ’’غائب‘‘ ہو گئے۔ پندرہ سالہ لڑکی کو طاقت ور قاتل نے اس کے گھر میں گھس کر ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، نو گولیاں ماریں۔ اصل پاکستان کی اس جھلک میں پنچایت کا ذکر بھی ہے اور اس حقیقت کا بھی کہ قاتل کی جاگیر میں داخل ہونے میں پولیس کو چھ گھنٹے لگے۔ یوں بھی وفاق سے لے کر صوبائی حکومت تک۔ وزراء سے لے کر بیورو کریسی تک، علماء سے لے کر این جی اوز تک کوئی اس معاملے میں آواز نہیں اٹھائے گا۔ دینی طبقہ تو یوں بھی ہر اُس شے سے بیزار ہے جس میں عورت کی مظلومیت کا ذرا سا بھی ذکر ہو، اِلاّماشاء اللہ! ایک بہت بڑی مذہبی پارٹی، جس نے سیاست کا تار تار لبادہ بھی اوڑھ رکھا ہے، اس معاملے میں روایتی مُلاّ سے بھی دو قدم آگے ہے۔ اس کے ایک سابق سربراہ نے ڈنکے کی چوٹ کہا تھا کہ آبرو ر یزی کے بعد عورت کو چاہیے کہ خاموش رہے! یہ کلپ یو ٹیوب پر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے آپ اس خوش گمانی میں نہ پڑیں کہ وہ جو ماڈرن طبقہ ہے، سوٹ پر نکٹائی کس کر باندھنے والا، یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ، وہ اس اصل پاکستان سے ہمدردی رکھتا ہے۔ ٹیلی ویژن کے ایک ٹاک شو میں ایک پروفیسر صاحب سے واسطہ پڑا جو ایک بڑی یونیورسٹی میں برسوں ’’تعلیم‘‘ دینے کے بعد، اب ایک اور بڑی یونیورسٹی میں اسی ’’خدمت‘‘ پر مامور ہیں۔ بلوچستان کے قبائلی سرداروں کا ذکر چھڑا تو حضرت نے ان کے حق میں اس دلسوزی سے دلائل دیئے کہ فضا میں اٹکے بادل بھی گریہ کناں ہو گئے۔ ایک وجہ وہ عصبیت بھی تھی جو قبیلے کی رکنیت کے باعث رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی تھی۔ قارئین کو اس سابق وزیر کا نام بھی یاد ہو گا جس نے ایک سابقہ عہد میں، اسمبلی میں کھڑے ہو کر، کہا تھا کہ یہ ہماری روایات ہیں۔ کسی نے چوں تک نہ کی! آسمان سے پتھر برسے نہ زمین نے گندھک اُگلی۔ اس اصل پاکستان پر، یقین رکھیے، تبدیلی کا سایہ تک نہیں پڑ سکتا۔ اس کی پنچایتیں ہمیشہ قائم و دائم رہیں گی۔ اس کے جرگے سدا بہار ہیں، یہ متوازی نظامِ انصاف، غریب بے سہارا عورتوں کو قتل کرواتا رہے گا۔ طاقت ور قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے رہیں گے۔ کوئی افتخار چودھری، کوئی بھگوان داس، کوئی کارنیلس، کوئی ثاقب نثار، کوئی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اس اصل پاکستان کو نہیں بدل سکتا۔ ونی اور اسوارہ کے جھنڈے بلند ہی رہیں گے۔ کاروکاری کا قاتلانہ کاروبار کبھی مندا نہیں ہو گا۔ ہمارے دوست، جن کے قلم میں آسمانوں کا زور ہے، ہر روز اورنج ٹرین، میٹرو بسوں، پلوں، شاہراہوں اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ٹائی کونوں کی یاد میں آہ و زاری کرتے ہیں، کبھی ان بے سہارا بے کس حوّا کی بیٹیوں کے بارے میں صحافت کی جادوگری نہیں دکھاتے جن کی لاشوں کو کفن تک نصیب نہیں ہوتا۔ یہ لاشیں ریگستانوں میں ٹیلوں کے نیچے دفن ہو جاتی ہیں۔ پھر جب آندھیاں ریت کو اُڑا لے جاتی ہیں تو ہڈیاں، بال اور کھوپڑیاں بکھر جاتی ہیں۔ یہ لاشیں اگر گھروں کے اندر ہوں تو انہیں اٹھانے کی جرأت کوئی نہیں کرتا۔ ان کے جنازے کوئی نہیں پڑھتا۔ ان کی تدفین رات کے اندھیرے میں چھپ کر کی جاتی ہے۔ کئی عشرے ہوئے تہمینہ درانی نے اپنی کتاب ’’مینڈا سائیں‘‘ میں لکھا تھا کہ جنوبی پنجاب کے جاگیردار اپنے خدام کو قتل کرتے ہیں تو ان کی میتیں اُبال کر اونٹوں کو کھلا دیتے ہیں۔ کھروں،لغاریوں، مزاریوں، قریشیوں، مخدوموں، کھوسوں اور بزداروں کے قدموں تلے صدیوں سے روندا جانے والا یہ علاقہ وہی ہے جہاں مجبور و مقہور ماں باپ چار چار سال کے لخت ہائے جگر کو مشرق وسطیٰ بھیج دیتے ہیں جہاں انہیں سرپٹ بھاگتے اونٹوں کی کوہانوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کے نوجوان پیٹ کے ہاتھوں عاجز ہو کر دہشت گردوں کے اوزار بن جاتے ہیں۔ نسل در نسل، زمینداروں کی مہیا کردہ چھتوں کے نیچے رہنے والے یہ بے زبان خاندان اپنی عورتوں کو ان حویلیوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ جہاں سے چیخیں باہر آتی ہیں نہ عزت واپس آتی ہے۔ جہاں چھوٹے چودھری چھوٹے سردار چھوٹے سائیں چھوٹے ملک کا پیدائشی حق ہے کہ جسے چاہے مار دے، جسے چاہے برہنہ سر کر دے، جسے چاہے رکھیل بنا لے۔ جہاں زمین ہی رکھیل ہو، وہاں زمین زادیاں کیوں نہ رکھیل ہوں۔ انتظار کرو اُس وقت کا جب نو گولیوں سے چھلنی ہونے والے انسانی جسم کا از خود نوٹس فرشتے لیں! پس نوشت 92نیوز گروپ نے اپنی چوتھی سالگرہ منائی ہے۔ یہ حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کے چار سال ہیں۔ یہ واحد چینل ہے جس نے مذہب، معاشرت، بین الاقوامی حالات، ملکی سیاست اور مقامی مسائل کو توازن کے ساتھ ناظرین کے سامنے پیش کیا۔ اس طرح کہ کوئی پلڑا کسی جانب نہ جھکا۔ پھر جب ایوانِ اقتدار میں نئے مکین آئے بڑے بڑے میڈیا گروپوں نے مشاہروںپر کلہاڑا چلایا اور صحافیوں، اینکروں اور کارکنوں کو بے دخل کر دیا تو 92نیوز گروپ نے کلہاڑا تو دور کی بات ہے، چھری تک نہ چلائی، نہ ہی کسی کو دربدر کیا۔ امید واثق ہے کہ اس درخت کی شاخیں بُور سے لدی رہیں گی اور اس کے سب پتے چھائوں بُنتے رہیں گے۔ پس نوشت دوم: برادر محترم جناب اوریا مقبول جان کی طرف سے پیغامِ محبت پر شکرگزار ہوں اور احسان مند!