اپوزیشن اور حکومت کے تعلقات کار میں شدید خرابی نے2020 کے دوران کئی تلخ یادیں چھوڑی ہیں۔ سیاست کے حوالے سے سال کی آخری بڑی خبر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کی گرفتاری تھی۔ ویسے تو 2020 پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے لیے منحوس سال ثابت ہوا۔ نومبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے دنیا میں خوف وہراس کی ایسی کیفیت پیدا کر دی کہ 1918 کے فلو کی وبا کی یاد تازہ ہو گئی۔ کورونا کی مو ذی وبا سے دنیا بھر میں تقریباً 18 لاکھ ہلاکتیں اور 8کروڑ 77لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ اب بھی لاکھوں لوگ زند گی وموت کی کشمکش میں مبتلا ہیں نیز اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اب کوویڈ کی دوسری لہر اور وائرس کی ایک نئی طرز کا انکشا ف ہو اہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلے وائرس کے مقابلے میں 70 فیصد تک زیادہ منتقل ہو سکتا ہے۔ تازہ وائرس نے برطانیہ میں پنجے گاڑ لئے ہیں، وہاں کے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ ختم ہو گئی اور مریضوں کو کسی اور جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔کورونا کے توڑ کے لیے ویکسین آ چکی ہے لیکن جب تک پورا اثر دکھائے گی۔ یہ نیا سال بھی گزر جا ئے گا۔ عمران خان کی حکومت خوش قسمت ہے کہ اس کی بہتر ین حکمت عملی سے پاکستان میں اس موذی مرض سے تباہی اتنی شدت سے نہیں ہوئی جیسی امریکہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ہوئی ہے۔ امریکہ میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد اس وائرس کی بنا پر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس بنا پر دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ اس وبا نے صرف اکانومی کو ہی تہس نہس نہیں کیا بلکہ اس کا سماجی طور پر بھی ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، کوویڈ کے باوصف اس کی اکانومی بحال نہیں ہوسکی، مہنگائی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی گئی اگرچہ اس میں معمولی کمی آئی ہے لیکن اب بھی افراط زر ڈبل ڈیجٹ میں ہے اور2020 کے آخر میں تیل اور بجلی کی قیمتوں میں ایک بارپھراضافے سے یہ صورتحال مزید خراب ہو گی۔ چینی، گندم، آٹا اور تیل کے سکینڈل بھی اس سال کی بڑی خبریں ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کی خراب حکمت عملی کے پیش نظر گورننس کی اچھی مثال قائم نہیں ہوئی اور وزیراعظم ہر روز نئے پراجیکٹس کے فیتے کاٹ رہے ہیں جو کا غذی حد تک خوش آئند ہے لیکن عملاً یہ اعلانات عوام کی تکالیف کا مداوا نہیں کرسکتے۔ اس سے بڑھ کر اگر کسی بھی پاکستانی سے یہ سوال پوچھا جائے کہ اس کے لیے روزمرہ کے حالات آ ج بہتر ہیں یا 2020 کے شروع میں تھے تو سوائے پی ٹی آئی کے حواریوں کے سب کا جواب یہی آئے گا کہ تحریک انصاف کی پالیسیوں کے نتیجے میں لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ مہنگائی، قانون کی بالادستی، امن وامان کامعاملہ ہو یا عوام میں احسا س تحفظ کا ہم رجعت قہقری کا ہی شکار ہیں۔ جہاں تک شہری آزاد یوں کا تعلق ہے، بظاہر تو بڑی ٹھیک نظر آتی ہیں جلسے جلوس بھی ہورہے ہیں اور انہیں میڈیا پر دکھایا بھی جا رہا ہے لیکن آزادی اظہا ر منفی طور پر متاثر ہوئی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خفیہ ہاتھوں نے میڈیا کودبا کر رکھ دیا ہے اور خود میڈیا والوں کو بھی نہیں پتہ کہ یہ کیونکر ہو رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی کئی بار رہی ہے لیکن 2020 میں یہ تمام حدیں عبور کر گئی۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بقائے باہمی کا یکسر فقدان رہا ہے۔ گالی گلوچ سیاست کا خاصا بن گیا ہے اور اس کی زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مخالفین کو برا بھلا کہنے اور کوسنے کو آرٹ کا درجہ دے دیاہے۔ باقاعدہ ترجمانوں کی ایک فوج ظفر موج ہے جس کو وزیراعظم اکثر اوقات ملتے رہتے ہیں اور خود یہ ہدایات دیتے ہیں کہ اپوزیشن کوکس طرح رگیدنا ہے۔ اس کے جواب میں حزب اختلاف نے بھی یہی حکمت عملی اختیار کرلی۔ نتیجتاً ملک میں ڈبیٹ کا لیول جگت بازی اور پستی کی حدیں چھورہا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی کم ہی سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ مسلم لیگ (ن) کا وجود ہی پیپلز پارٹی کی ضد سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ سال کی ایک اور اہم خبر اپوزیشن پارٹیوں کا ایک دوسرے سے مل جانا ہے اور اس کی انتہا نوڈیرو میں بے نظیر بھٹو کی13 ویں برسی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کی نا ئب صد ر مریم نواز کو مدعو کرنا اور ان کا اجتماع سے دھواں دھار خطاب ہے۔ اس وقت یہ بات وجہ نزاع بنی ہوئی ہے کہ اپوزیشن کا نیا اتحاد پی ڈی ایم آ ئندہ کیا کرے گا۔ وہ اس مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے کب دیئے جائیں، دیئے بھی جائیں، یا نہیں؟۔ عوام کنفیوزڈ ہیں کہ ایک طرف سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جارہا ہے دوسری طرف استعفوں کی بات کی جا رہی ہے لیکن اپوزیشن کے تمام تر زور لگانے اور دعوؤں کے باوجود کہ مہینوں میں حکومت چلی جائے گی یہ منطق زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتا۔ عمران خان کی حکومت بظاہر مستحکم ہے۔ماضی کی حکومتوں کے برعکس مقتدر قوتوں سے ان کے تعلقات خوشگوار ہیں اور قومی اسمبلی میں بھی ان کو اکثریت حاصل ہے اور دو ماہ میں سینیٹ کے الیکشن کے بعد وہاں بھی پی ٹی آئی کو بالادستی حاصل ہو جائے گی۔ 2020 میں نیب کی کارروائیاں سیاست پر چھائی رہیں۔ نیب کی پکڑ دھکڑ کو عمومی طور پر سیاستدانوں کے خلاف احتساب نہیں بلکہ انتقامی کارروائیوں کے زمرے میں گنا جاتا ہے لیکن حکومت یہ کہہ کر کہ نیب قانون ہم نے نہیں بنایا اسے بے دریغ طریقے سے استعمال کر رہی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ نیب اپناکام کر رہا ہے اور اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں لیکن اسے 2020 کا بڑا جھوٹ ہی قرار دیا جائے گا۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خارجہ امور کے بجائے مقامی سیاست میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے بہت سے قریبی اسلامی دوستوں کے ساتھ تعلقات میں پہلے جیسی گرمجوشی نظر نہیں آتی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات حتیٰ کہ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ نہیں تو پہلے جیسے بھی نہیں ہیں۔ سعودی عرب نے تیل کے حوالے سے رقم واپس مانگی جو پاکستان نے ادا کر دی اور تیل ادھار دینے کا جو وعدہ کیا تھا بالآخر ذرائع کے مطابق پورا نہیں ہو رہا۔ عظیم دوست چین جس کے پاکستان کے ساتھ تاریخی سٹریٹجک تعلقات ہیں کو بھی وضاحت کرنا پڑی کہ پاکستان اور چین کے تعلقات خوشگوار ہیں۔ اس مجموعی صورتحال کے پیش نظر نئے سال میں معاملات کی درستگی کے لیے شدید کا وشیں کرنا ہونگی۔