پچھلا سال کورونا کے باعث پریشان کن رہا۔اس سال مگر ایک اچھا کام یہ ہوا کہ کتابوں کی طرف میری واپسی ہوئی۔ کوروناکے باعث ہونے والا لاک ڈائون اس کی وجہ نہیں بناکہ میرے جیسے اخبارنویس لاک ڈائون میں بھی روزانہ دفتر آ کر اپنا کام کرتے رہے۔ ستمبر کے دنوں میں جب کورونا ہوا، تب دو ہفتے گھر رہنا پڑا، مگر ان دنوں بیماری کی وجہ سے کوفت اور پریشانی اتنی تھی کہ یکسوئی سے مطالعہ نہیں ہوسکا۔ کتابوں کی طرف لوٹنے کی بڑی وجہ یہ بنی کہ سوشل میڈیا پر ضائع ہونے والے سینکڑوں گھنٹوں نے پریشان کر دیا تھا۔ فیس بک اور واٹس ایپ کی اہمیت اتنی زیادہ ہوگئی کہ ان کے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ یہ رابطے کا بنیادی ذریعہ بن گئے ہیں، مگر کسی بھوکے اژدھا کی طرح ہماری زندگی کے بے شمار گھنٹے ہڑپ کر لیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رات کو کسی وقت یا علی الصبح آنکھ کھلے اور غلطی سے فون اٹھا کر میسج چیک کرنے کی کوشش کی جائے تو ڈیڑھ دو گھنٹے یوں دبے پائوں گزر جاتے ہیں کہ احساس تک نہیں ہوپاتا۔ میں نے پچھلے سال کی ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ اب کتاب کی طرف لوٹنا ہے ۔ اپنی کتابوں پر کام بھی شروع کیا، دو کتابیں شائع ہوگئیں، اللہ نے چاہا تو دو تین کتابیں نئے سال میں شائع ہوجائیں گی۔ کتابیں پڑھنے کے لئے نیا تجربہ کیا۔ بیک وقت دو تین کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔ صبح کے لئے کسی اور کتاب کا انتخاب کیا، جبکہ شام کو اس سے بالکل مختلف مزاج کی کتاب پڑھنا شروع کی، اسی طرح دفتر میں فراغت کے لمحات کے لئے پی ڈی ایف یا ای بکس پڑھنے کا فیصلہ کیا۔میں نئی کتابوں کی پی ڈی ایف کے بالکل حق میں نہیں۔ پبلشر اتنی محنت اور سرمایہ کاری کر کے کتاب شائع کرتا ہے، اس کی کتاب پی ڈی ایف بنا کر نیٹ پر ڈالنے سے بہت نقصان ہوجاتا ہے۔یہی رجحان رہا تو کتاب کوئی نہیں خریدے گا۔ سب سے زیادہ نقصان مصنف کو پہنچے گا اور علم کے متلاشی احباب بھی محروم رہ جائیں گے۔ میں ریختہ کی ویب سائٹ پر کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتا رہا کیونکہ وہ مصنف سے رائٹس لے کر ای بک بناتے ہیں۔ اسی طرح کچھ کتابیں جو آئوٹ آف پرنٹ ہیں ، ان کی پی ڈی ایف پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ انگریزی کتابیں جو باہر سے شائع ہوتی ہیں اور زیادہ تر پاکستان نہیں پہنچ پاتیں یا دیر سے آتی ہیں، ان میں سے بعض مہنگی بھی بہت ہیں۔ ان کی اگر ای بک مل جائے تو اسے پڑھنا مجھے غلط نہیں لگتا۔کورونا سے پہلے معروف ناول نگار اور شاعرجناب اشرف شاد آسٹریلیا سے پاکستان آئے تو انہوں نے مجھے اپنا تازہ ناول اینکر رستم بی اے دیا۔ اشرف شاد کے پہلے ناول ’’بے وطن ‘‘نے پاکستان میں خاصی پزیرائی حاصل کی تھی، 1997ء میں وہ شائع ہوا، اسے وزیراعظم ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ بدقسمتی سے شاد صاحب کے باقی تینوں ناولوں کا یہاں تذکرہ بھی سننے میں نہیںآیا۔ اسلام آباد کے دوست پبلشر نے انہیں شائع کیا۔ ’’وزیراعظم‘‘ ،’’ صدر محترم ‘‘ اور پھر ’’جج صاحب۔‘‘ یہ تینوں ناول عمدہ اور پڑھنے کے قابل ہیں۔ ’’وزیراعظم ‘‘ہماری ملکی سیاست کے پیچ وخم اور ڈرامائی تبدیلیوں کے گرد گھومتا ہے، اس کے بعض کردار پہچانے جاتے ہیں۔’’ صدر محترم ‘‘میں مصنف نے بعض کرداروں کو دانستہ دھندلا کر دیا، مگر یہ ناول بھی خوب ہے۔ اس کا ایک بہت اہم کردار آج کل قومی سیاست کا مرکزی کردار ہے، اس سے وابستہ رومان اس قدر طاقتور تھا کہ اشرف شاد بھی اپنے ناول میں اس کا اثر لینے پر مجبور ہوگئے۔ ’’جج صاحب‘‘ میں اتنی محنت، عرق ریزی اور قانونی نکات کی تفہیم ہے کہ مجھے اشرف شاد صاحب پر رشک آیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے جو تہلکہ مچایا، اس کی ہلکی سے جھلک ناول میں ہے، مگر یہ ان سے متاثر نہیں۔ جج صاحب پڑھنے کا لطف آیا۔ ویسے تو رستم بی اے اینکر بھی اچھا لگا۔ یہ سب ناول دوست پبلی کیشنز نے شائع کئے ہیں۔ ریختہ پر بھی موجود ہیں۔ لاہورمیں ہر سال فروری میں کتاب میلہ ہوتا ہے،روایتی طور پر پہلا ہفتہ اس کے لئے مختص ہوتا ہے۔ اس بار کورونا کے باعث مشکل لگ رہا ہے۔ منتظمین کو چاہیے کہ وہ اسے کچھ تاخیر سے منعقد کرا ڈالیں، مارچ میں ہوجائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اللہ کرے گا تب تک یہ مصیبت ٹل جائے گی۔پچھلے سال فروری کے کتاب میلے میں بہت سی کتابیں خریدیں، کچھ پڑھیں، بعض ابھی تک نہیں پڑھ سکے۔ اگلے سال کی فہرست میں ان تمام کتابوں کو ڈال دیا ہے کہ ہر ہفتے ایک کتاب پڑھنا ہے۔ ان شااللہ ہمت اور رب کریم کی توفیق رہی تو پڑھ لیں گے۔ کورونا کے باعث کتابوں کی آن لائن خریداری بہت بڑھی ہے۔ ناشر حضرات کو سہولت ہوگئی کہ وہ فیس بک، واٹس ایپ پر اپنی کتابوں کی پبلسٹی کر کے خواہش مند قارئین کو کتاب ڈیلیوری آن کیش پیمنٹ بھیج دیتے ہیں۔ گھر کتاب وصول کر کے اس کے پیسے کورئیر کو پکڑا دیں۔ اس سے کتابیں پڑھنے اور کتابیں چھاپنے والوں کے لئے بڑی آسانی ہوگئی ہے۔ گھر بیٹھے آرڈر کر دیں اور گھر بیٹھے وصول ہوگئی۔ پبلشر کو یہ فائدہ کہ اب دو تین دنوں میںکتاب کی رقم وصول ہوجاتی ہے۔ کورونا میں بہت خوبصورت کتابیں شائع ہوئیں۔ کئی ادبی شاہکار جو برسوں سے آئوٹ آف پرنٹ تھے، وہ بھی شائع ہوئے بلکہ بعض کے توچند ہفتوں میں پہلے ایڈیشن بھی نکل گئے۔ ۔ جہلم بک کارنر نے تواتر کے ساتھ بعض بڑی عمدہ کتابیں شائع کیں۔ سال کے وسط میں نوبیل انعام یافتہ روسی ادیب میخائل شولوخوف کا ناول ’’اور ڈان بہتا رہا‘‘پڑھنے کو ملا۔ مخمور جالندھری نے اس کا ترجمہ کیا تھا، انہوں نے کمال کر دکھایا ۔ روسی لینڈ سکیپ، کاسک ماحول، روس کی سردیاں اور پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاری، زار روس کے خلاف عوامی مزاحمت … ان سب کی جھلک ناول میں ملتی ہے۔ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس سال صحافی دوست برادر عزیز محمود الحسن سے حسب سابق کئی کتابیں لے کر پڑھیں۔ فروری کے کتاب میلہ میں میری کتاب زنگار نامہ کے ساتھ محمود الحسن کی مرتب کردہ کتاب ’’شہر پر کمال ‘‘بھی شائع ہوئی۔ لاہور شہر سے محبت کرنے والے دو نامور ادیبوں کے تذکرے کو عمدگی سے محمود الحسن نے مرتب کیا۔ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے اس کا دیباچہ لکھا۔ محمود ہی سے نوبیل انعام یافتہ ادیب گنترگراس کا شاہکار ناول ٹن ڈرم ڈرم کا اردو ترجمہ’’ نقارہ ‘‘لے کر پڑھا۔ نقارہ بہت مختلف مزاج اور ذائقے کا ناول ہے۔ ابتدا میں یہ قدرے رکاوٹ ڈالتا ہے، قاری اگر مستقل مزاج ہو تو ایک شاندار ناول اس کا منتظر ہے۔ ایک بچے کے چھوٹے سے کھلونا ڈرم کے گرد ایسی خوبصورت کہانی صرف گنتر گراس ہی بُن سکتا تھا۔ باقر نقوی مرحوم نے اس کا ترجمہ کیا۔ نقوی صاحب ہم سے بچھڑ چکے ہیں، مگر ان کا کام زندہ ہے۔ انہوں نے نقارہ اور وکٹر ہیوگو کے شاہکار ناول لی میزرابیل ( Les Misérables)کا دو ضخیم جلدوں میں ترجمہ’’ محراب‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ ہیوگو کے ناول پر کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ باقر نقوی کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ناول کا مکمل متن کا ترجمہ کیا، ورنہ ہمارے مترجم حضرات پبلشر کے دبائو پر ناول کے کچھ حصے ایڈٹ کر دیتے ہیں۔ گاڈ فادر کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک ترجمہ دیکھا،ایک معروف مترجم اور فکشن نگار نے اسے اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے ماریا پوزو کے اس شاہکار کے کچھ حصے ترجمہ ہی نہیں کئے۔ بدقسمتی سے وہ تمام ٹکڑے ایسے تھے جہاں ناول نگار کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ باقر نقوی نے وکٹر ہیوگو کے شاہکار کے ساتھ انصاف برتا۔ پچھلے سال ہمارا ایک اور خواب پورا ہوا۔ برسوں سے تمنا تھی کہ سب رنگ ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی شاہکار کہانیاں کسی طرح کتابی شکل میں شائع ہوں۔ برادرم حسن رضا گوندل جو کہ سب رنگ کے عاشق ہیں، انہوں نے یہ کام کر دکھایا۔استاد محترم جناب شکیل عادل زادہ کا شکریہ کہ انہوں نے اس خیال کو مجسم ہونے دیا۔ بک کارنر جہلم ہی نے آرٹ پیپر پر نہایت خوبصورت انداز میں سب رنگ کہانیاں کی پہلی جلد شائع کی۔ صرف ایک ماہ میں پہلا ایڈیشن فروخت ہوگیا۔ سب رنگ کہانیاں کی دوسری جلد بھی شائع ہوگئی، اسے بھی پزیرائی ملی۔ آج کل دونوں جلدوں کا سیٹ پچاس فیصد رعایتی قیمت پر دستیاب ہے۔ سب رنگ کہانیاں کا تیسرا حصہ یعنی جلد تھری بھی چند دنوںمیں آنے والی ہے۔ یہ آٹھ دس جلدوں کا پورا پراجیکٹ ہے، جس میں شکیل عادل زادہ کے فسوں ساز قلم سے لکھے ادارئیے اوران کا شہرہ آفاق’’ ذاتی صفحہ ‘‘بھی ایک مکمل جلد میں شائع ہوگا۔ اس کے بعد توقع ہے کہ بازی گر بھی کتابی شکل میں چھپ جائے، شکیل بھائی آج کل اس ادھورے ناول کو مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔ سال گزشتہ میں بہت سی دیگر کتابیں پڑھنے کا موقعہ ملا۔جمہوری پبلشرز کے فرخ سہیل گوئندی نے حسب روایت کئی شاندار کتابیں چھاپیں۔ اورحان پاموک کے ناول’’ خانہ معصومیت‘‘ نے مجھے سحرزدہ کر رکھا ہے، اسے ختم کرنے کا جی نہیں چاہتا۔جمہوری کی کتابوں پر بات کریں گے۔ کورونا کے قرنطینہ کے دوران قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی کتابیں بھی پڑھیں اور مسحور رہ گیا۔ یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان کی کتابوں پرتفصیلی ریویو یا کمنٹری لکھوں گا۔ قبلہ شاہ صاحب نے اس کی اجازت بھی مرحمت فرما دی ہے۔ اگلی نشست میں ان شااللہ کتابوں کا یہ لذیذ تذکرہ مکمل کروں گا۔