یہ جاتے برس کا ایک اداس دن تھا ، دیواروں پرکلینڈر 71ء کا سن اور 16دسمبر کا دن بتا رہاتھا،دنیامیں ایک ہی خبر موضوع بحث اور عالمی نشریاتی اداروں کی ہیڈلائن تھی کہ پاکستان دو لخت ہوگیا ، مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن چکا ہے ،یہ خبر پاکستانیوں کے لئے روح فرسا تو تھی ہی پاکستان کے خیر خواہوں کے لئے بھی افسوس ناک تھی ،اسلام آباد سے 4000کلومیٹر دور سعودی عرب میں جب یہ خبر سعودی فرماں روا شاہ فیصل تک پہنچی تووہ اس وقت ام القراء کی معتبر ہستیوں کے ساتھ تھے یہ خبر سن کر انکی آنکھیں بھر آئیں اور وہ یوں بے اختیار رونے لگے جیسے کسی قریبی عزیز کاانتقال ہوگیا ہو، شاہ فیصل کے لئے پاکستان ایسا ہی اہم اور عزیز تھا۔ سعودی عرب کے پاکستان سے برادرانہ تعلقات قیامِ پاکستان سے پہلے کے یوں کہے جاسکتے ہیں کہ1940میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد اس وقت کے ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیاتھا جہاںمرزا ابوالحسن اصفہانی سمیت آل انڈیا مسلم لیگ کے راہنماؤں نے ان کا ہاتھ ہاتھوں میں لے کرپرتپاک استقبال کیاتھا،سعودی عرب پاکستان کو تسلیم کرنے والے ان اولین ممالک میں سے بھی ہے جنہوں نے پاکستان کے وجود میں آتے ہی اسے تسلیم کرلیا تھا۔ دونوں ممالک کے مابین1951 میںدوستی کا معاہدہ ہواتھاجس کے بعد 1954 میں شاہ سعودمرحوم اس وقت پاکستان کے دارالحکومت کراچی کے دورے پرپہنچے تھے اورانہوں نے ایک ہاؤسنگ ا سکیم کا سنگِ بنیادبھی رکھا تھاجسے آج میں اور آپ سعود آباد کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ پاک سعودی تعلقات آگے بڑھتے اور مضبوط ہوتے رہے 1965 کی پاک بھارت جنگ اور پھر 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں دونوں برادرممالک کی دوستی ان آزمائشوں پر پوری اتری تھی۔ 1953 میں شاہ سعود کے زمانے میں پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات کا ایسا آغاز ہوا کہ جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا سعودی عرب بڑے بھائی کی طرح مدد کو پہنچا اور جب بھی سعودی عرب نے پاکستان کی طرف دیکھا پاکستان نے بھی لبیک کہا ،71ء میں سقوط پاکستان کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے لوک سبھا میں پرغرورلہجے میںدوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبونے کا کہہ کر اپنے جرم کا کھلا اعتراف کیا جس کے بعد پاکستان کواپنے دفاع کے حوالے سے غیر معمولی فیصلے کرنے پڑے۔ پڑوس میں بھارت ایٹمی پروگرام کا آغاز کرچکا تھاپاکستان کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ کبوتر کی طرح آنکھیں موند لے یا شتر مرغ بن کر ریت میں سر ڈال لے۔ پاکستان نے بڑا فیصلہ کیااوراس بڑے فیصلے میں سعودی عرب نے بڑے بھائی کی طرح ساتھ دیا پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کے لئے شاہ فیصل مرحوم نے کہاکہ سعودی عرب کے سارے خزانے اور وسائل حاضر ہیں۔اس موقع پر شاہ فیصل نے عربی کی ضرب المثل ’’عزت سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ‘‘ کہہ کر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیاتھا۔ 18مئی 1974ء کو ’’مسکراتے بدھا‘‘ نے بھارت کے جارحانہ عزائم کا کھلا اظہار کیا، smiling budhaدراصل بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے کا نام تھا جو پوکھران میں کیا گیا، بدھا کی اس معنی خیزمسکراہٹ نے پاکستان کے خدشات سو فیصد درست ثابت کردیئے تھے تب پاکستان نے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی قیادت میں اپنے دفاع کے گردجوہری فصیل کی تعمیرتیزی سے مکمل کرنا شروع کی اورشاہ فیصل مرحوم نے اپنے دوست ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو بھرپورمالی امداد فراہم کی، ساتھ ہی پاکستان کی مالی مشکلات دور کرنے کے لئے سعودی عرب کے دروازے پاکستانی محنت کشوں پہ کھول دیئے ۔ پاکستان کو اِس وقت بھی بدترین معاشی اور توانائی کے بحران کا سامنا ہے اور ایک بار پھر سعودی عرب اپنے بھائی کی مدد کو آیا ہے اس نے پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کے لئے گذشتہ برس کے اواخر میں رکھوائے گئے تین ارب ڈالر کی مدت میں توسیع کردی جب کہ رواں ماہ کے آغاز میں سعودی سرکاری میڈیا نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری ایک ارب ڈالر سے بڑھا کر 10 ارب ڈالر کرنے اور پاکستان کے مرکزی بینک میں ڈپازٹس کی حد بڑھا کر 5 ارب ڈالر کرنے جارہا ہے کچھ دن پہلے ہی متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو دیئے گئے 2 ارب ڈالر کے قرض کی مدت میں بھی توسیع کے ساتھ مزید ایک ارب ڈالر قرض دینے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب ہمارے لئے بہت اہم ہے سعودی معیشت کے جاری تنوع میں پاکستان کی ہنرمند افرادی قوت کے لیے آئی ٹی، سیاحت ، مالیاتی خدمات اور دیگر شعبوں میں بڑے مواقع ہیں اس وقت بھی سعودی عرب میں 20 لاکھ سے زائد پاکستانی ہمارے لئے ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ اور ڈھارس ہیں ۔ اس سارے تناظر میں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک بھائی کو مشکل میں دیکھ کر دوسرے بھائی کے ایثارپر کسی کو تکلیف کیوںہے !بیرونی طاقتوںکی تکلیف تو سمجھ میں آتی ہے ہمارے درمیان موجودبعض قوتوں کوکیا مسئلہ ہے سمجھ نہیں آتا یہ عناصردونوں بھائیوں کے درمیان فاصلے پیداکرنے کے لئے منفی پہلوؤں کو ہوا دے رہے ہیں بدقسمتی سے یہ کام مخصوص ایجنڈے کا حامل بین الاقوامی میڈیاتو کرتا ہی ہے اب ہمارے کچھ اشاعتی نشریاتی ادارے بھی شروع ہوچکے ہیں آج کل ایک بار پھر پاک سعودی تعلقات سے دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیںلیکن اس سے زیادہ اہم ہماری آستینوں میں پلنے والے سانپوں اور سنپولوںکی حرکتوں سے باخبر ہونا ہے کہ یہ وہ ہیں جو موقع ملنے پرڈسنے سے باز نہیں آتے!