مولانا فضل الرحمٰن خلیل کاغذات دستاویزات میں تو عالم دین ہیں لیکن ان کی اصل شہرت جہاد افغانستان ہے ان کی ابھی تازہ تازہ مسیں ہی بھیگی تھیں کہ سرحد پار روس کے خلاف جہاد کی صدا نے انہیں میران شاہ کا رخ کرنے پر مجبور کردیا انہوں نے کم عمری میں افغانوں کی اس تحریک مزاحمت میں انکا ساتھ دیا اور بہت کچھ بھگتابھی،جب مجاہدین محبوب سے معتوب ہوئے تو ان پر بھی کٹھن وقت آیا وہ گرفتار کرکے وہاں ڈال دیئے گئے جہاںروشنی بھی نہ پہنچتی تھی ،میری ان سے اچھی یاد اللہ ہے ایک بار ملاقات میں بیت اللہ محسود کا ذکر نکل آیا کہنے لگے میں اور بیت اللہ محسود میران شاہ سے بنوں آرہے تھے کہ اس نے ایک جگہ گاڑی رکوا دی اور مجھے دائیں بائیں پہاڑوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے امیر صیب !ادھر بھی دیکھیں اور ادھر بھی ،میں نے دائیں بائیں دیکھا تو سنگلاخ پہاڑ اور ان پر ٹوٹے پھوٹے ملبے کا ڈھیر بنے گھر دکھائی دیئے میں نے بیت اللہ محسود کی طرف وضاحت طلب نظروں سے دیکھا کہ کیا بتانا چاہتے ہوتو وہ کہنے لگا امیر صیب ! ہم محسودوں میں دو خرابیاں ہیں ایک تویہ کہ ہمارا بچہ بالغ ہوتا نہیں ہے کہ اسکی شادی کردیتے ہیں ،دوسری خرابی یہ ہے کہ شادی کے بعد وہ یا تو قطر سعودیہ میں ٹرک چلا رہا ہوتا ہے یا کراچی میں ڈمپر،اب مجھے یہ بتائیں ایسے میں ان گھر وں پرامریکی طیارے بمباری کرتے ہوں گے تو کون مرتا ہوگا؟ اسکے بیوی بچے ماں باپ یا دادا دادی ،بیت اللہ محسود کا ہی کہنا تھا کہ ہر ڈارون حملہ مجھے بیس بمبار دے جاتا ہے ،کچھ معاملہ ایسا ہی خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں کے ساتھ بھی ہے وہاں سرجن نے دہشت گردی کا ناسور کاٹ کر علیحدہ کردیا ہے ،مریض کو آپریشن تھیٹر سے آئی سی یو میں پہہنچا دیا گیاہے اسے ہوش بھی آچکا ہے حالت بھی خطرے سے باہر ہے لیکن اسے مرہم پٹی، دوادارو، مکمل آرام اور توجہ کی اشدضرورت ہے قبائلی علاقے کے مسائل ،احساس محرومیاں ڈارون بن کرگر رہی ہیںجس سے اغیار فائدہ اٹھا رہے ہیں، سرحد پار کابل میں بیٹھی دہلی سرکار ان محرومیوں ،مسائل شکایات کو پروپیگنڈے میں لپیٹ کرہزار سے ضرب دے رہی ہے مسائل کے یہ ڈارون اپنے اہداف پر گررہے ہیں اورپاکستان مخالف وائرس زدہ کابل کی پشتون تحفظ موومنٹ کا کام آرہے ہیں ہر ’’ڈارون حملہ‘‘ پی ٹی ایم قیادت کی باچھیں پھیلا نے کا سبب بن رہا ہے۔ سوشل میڈیا پراب تو اس امریکی پروفیسر کا ٹیلی وژن انٹرویولاش کرنا پڑتا ہے جو کبھی وہ کرونا وائرس کی طرح پھیلا ہوا تھا ،اب بھی سرچ انجنوں کی مدد لی جائے تو وہ چشم کشا انٹرویو سامنے آجاتا ہے ،وہ کوئی امریکی مصنف دانشور تھاجو رووسی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا رہا تھا کہ خاکم بدہن پاکستان کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اس کے لئے پشتون قوم پرست جماعتوں سے مدد لی جائے گی پاک افغان سرحد پر آباد قبائل میں بے چینی اضطراب پیدا کرکے قوم پرستی کی تحریک چلائی جائے گی اور اسے پھیلا کر بڑھا کر اپنا ایجنڈا آگے بڑھایا جائے گا۔۔۔منظور پشتین کی سیاسی پیدائش سے پہلے دیئے جانے والا یہ انٹرویو بتاتا ہے کہ کہیںنہ کہیں کسی نہ کسی لیبارٹری میں پاکستان کے خلاف یہ وائرس بنایا جارہا تھاتاریخ کی مدد لیں تو پتہ چلے گا کہ پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھیں ،بدقسمتی سے کڑوا سچ یہی ہے کہ سب سے پہلے ڈیورنڈ لائن کے پار والے پڑوسی نے ان کوششوں کا آغاز کیا، پشتون علاقوں میں عصبیت کو ہوا دے کرپشتونستان کا وائرس پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی ،یہ ہمارا برادر ملک افغانستان ہی تھا جس نے پاکستان کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کیا پاکستان نے اقوام متحدہ میں رکنیت کی درخواست کی تو مخالف ڈیورنڈ لائن کے پار کھڑا کابل ہی تھا،یہ کابل ہی تھا جہاں 1947ء میں پشتونستان کا جھنڈا لہرایا گیا،یہ کابل سے آنے والا ایلچی نجیب اللہ ہی تھا جس نے قائد اعظم سے ملاقات کرکے ڈیورنڈلائن کے قبائلی علاقوں سے دستبردار ہونے کا کہااور پاکستان کی بندرگاہوں تک ایسی راہداری دینے کا احمقانہ مطالبہ کیا جس پر پاکستان کا نہیںافغانستان کا کنٹرول ہو12اگست1949ء میں پشتونستان کی تحریک کا اعلان ہوا توخیرمقدم کرنے والا ملک بھی افغانستان تھا،31اگست1949ء کو پشتون جرگہ منعقد کیا گیا جس میں ہر سال اگست میں یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کیا گیااس جرگے کی میزبان بھی افغان حکومت تھی اور یہ بھی افغانستان ہی تھا جس کے صدر محمد داؤد خان نے 17 جولائی 1973ء کو صدر بننے کے بعد اپنے پہلے ریڈیو خطاب میں پشتونستان کو اپنے آباواجداد کی کھوئی ہوئی میراث قرار دے کر کہا تھا کہ افغانستان کا دنیا میں اگر کسی ملک سے تنازعہ ہے تو وہ پاکستان ہے ،یہ وائرس کابل میں آج بھی موجود ہے دہلی کی پوری کوشش ہے کہ کابل اس وائرس سے پاک نہ ہو اس کام کے لیے وہ کابل اور اسکے زیر اثر علاقوں میں 139ارب روپوں کی سرمایہ کاری کرچکا ہے وہ کابل کو پاکستان کے خلاف اکساتا رہتا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ بھی اسی وائرس کا نتیجہ ہے ،دس مارچ کو پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے پشتون جرگے میں پی ٹی ایم کی رہنما ثناء اعجاز نے پشتونوں کی نسل کشی کا شوشہ چھوڑکر جرگے کا بیانیہ بدلنے کی کوشش کی حالاںکہ افغانوں کی نسل کشی پر ماتم کہیں بنتا ہے تو اسکا صحیح مقام افغانستان ہے جہاں لاکھوں پشتونوں کے مارے جانے کے بعد امن کا موقع ملا تو عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی اپنی اپنی دکان کھول کر بیٹھ گئے، جرگے میںبنوں کے جلسے میں اپنے ساتھی علی وزیر محسود کے منہ سے افواج پاکستان کے سپاہیوں کی پھانسی کی خواہش کا اظہارسننے والے محسن داوڑ نے بھی امن کی خوب بات کی کہا کہ پی ٹی ایم پشتون سرزمین پرامن کی خواہاں ہے اور انہی مقاصد کے لئے آواز بلند کررہی ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ ’امن ‘‘ کے خواہاں محسن داوڑ کب اورکس جرگے میں اپنے جلسوں پروگراموں میں پاکستان کے خلاف بلند ہونے والی آوازوں پر اظہار خیال فرمائیں گے وہ کب علی وزیر کے تیزابی بیانات پر لب کشائی کریں گے اور کب کابل کی طرف بیتاب نظروں سے دیکھنا چھوڑ کر قبائلی علاقوں کے اصل مسائل پر بات کریں گے لیکن نہیں ۔۔۔ان کا مسئلہ میران شاہ اور تیراہ کے کھنڈرسکول ،تباہ حال اسپتال ،گنتی کے کالج اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں نہیں ہیں ان کا تومسئلہ ہی کچھ اور ہے اور ووہ کیا ہے یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔