الحمد اللہ !مرکزتجلیات، منبع فیوض وبرکات، الشیخ السیّد علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش ؒکے 976واں سالانہ عرس مبارک کی عظیم الشان اور فقید المثال تقریبات بخیروعافیت اختتام کو پہنچیں۔بلاشبہ آپؒ کے عرس کی یہ تقریبات برصغیر کے سب سے بڑے دینی اور روحانی اجتماع کی حیثیت سے معروف اور معتبر ہیں ، جس میں پانچ سو سے زائد اکابر سادات ،مشائخ ، سجاد گان ،علماء ،سکالرز اور علمی وروحانی حلقوں کی ممتاز اورمعتبر شخصیات شریک ہوئیں ۔ عرس کے اعلیٰ ترین انتظامات یقینا پنجاب حکومت اور بالخصوص محکمہ اوقاف ومذہبی امور پنجاب کے لیے اعزاز کی بات ہے ۔ اس موقع پر 16تا 18اکتوبر2019ء بمطابق 16تا 18صفر المظفر1441ھ ، (بدھ،جمعرات ،جمعہ) بمقام داتادربار’’سہ روزہ عالمی تصوف کانفرنس ‘‘کا انعقاد ہوا ،جس کا موضوع تھا: ’’برصغیر میں اسلامی تہذیب کی تشکیل میں شیخ علی ہجویریؒ کا کردار‘‘ د ورالشیخ علی الہجویریؒ فی تکوین الحضارۃ الاسلامیۃ فی شبہ القارۃ Role of Shaikh Ali Al Hujveri in formation of Islamic Civilization in the Subcontient کانفرنس میں وطنِ عزیز پاکستان کے علاوہ ، معاصر اسلامی دنیا تیونس،یمن،عراق ، برطانیہ، ترکی، افغانستان ، ایران، ہندوستان کی معروف دانشگاہوں ، علمی حلقوں اور روحانی درگاہوں کی معتبر شخصیات تشریف فرما ہوئیں ،جن میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے آبائی گائوں ہجویر (افغانستان) سے خصوصی وفد کے علاوہ حضرت شیخ عبدالقادر الجیلانی پیرانِ پیر کی در گاہ کے سجادہ نشین الشیخ الہاشم الجیلانی ،بغداد شریف سے جلوہ گر ہوئے ،علاوہ دیوان سیّد طاہر نظامی سجادہ نشین درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلی ،پیر سیّد محمدبلال چشتی سجادہ نشین حضرت خواجہ معین الدین چشتی،کی خصوصی آمد نے کانفرنس کے روحانی اور درگاہی حوالوں کو معتبر کردیا ۔اس عظیم الشان اور وقیع کانفرنس کے مندوبین اور اکابر علمی شخصیات اور ہجویریات کے بین الاقوامی ماہرین نے حضرت داتا گنج بخشؒ کے احوال وافکار اور سیرت و کردارکی بین الاقوامی سطح پر ترویج کی اس اہم ترین کوشش کی از حد تحسین کی ۔ کانفرنس کی اختتامی نشست میں کالم نگار کو کانفرنس کا اعلامیہ پیش کرنے کی سعادت میسر آئی ۔ جس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں ۔ i۔مندوبین اورشرکاء کانفرنس اس امر پر متفق ہیں کہ آج اُمّتِ مُسلمہ ہر طرف سے، جس نوعیت کے مصائب ومشکلات اور تذبذب وتشکیک کا شکار ہے، تو ان حالات میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے حیات بخش فرمودات اور اُن انقلاب آفرین تعلیمات سے روشنی حاصل کی جائے، جو زندگی کو عمل ، حرکت اور جُہدِ مسلسل سے مزّین کرنے اور ایک روشن اوربلند نصب العین سے منوّر کرنے کا پیغام دے رہی ہے۔ اس سہ روزہ عالمی کانفرنس، جس میں وطنِ عزیز پاکستان کے معروف ومعتبر سکالرز اور ہجویریات کے ماہرین اور معاصر اسلامی دنیا کے محققین پوری دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ اس حقیقت کے ابلاغ پر متفق ہیں کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے پیغام کی اس حقیقی روح اور حیات بخش افکار اور تعلیمات کو عام کیا جائے، جن کو حکیم الامت حضرت اقبال جیسی عبقری شخصیت نے اپنے فلسفے کی اساس اور فکر کی بنیاد بنا کر مخالف قوتوں سے گریز کی بجائے، ان سے نبرد آزما ہو کر انہیں مُسخّر کرنے کی تعلیم دی۔۔۔ کہ یہی انسانی زندگی کی رمزِ بقا اور اساسِ حیات ہے۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ کی زندگی اسلامی سیرت کا ایسا عمدہ نمونہ تھی جس میں کسبِ علم، تہذیب نفس، تبلیغ اسلام اور اصلاح معاشرہ جیسے عمدہ محاسن اور اعلیٰ مقاصد نہایت آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں، آپ نے آذر بائیجان ، خراسان، ترکستان، شام ، عراق ، خوارستان، گرگان، فارس جیسے سنگلاخ اور دور اُفتادہ علاقوں کے سفر کر کے تحصیلِ علم ، اکتسابِ فیض اور حصول مقصد کے لیے،سخت کوشی، محنت، ریاضت،اخلاص،لگن اور توجہ جیسے بنیادی انسانی خصائص کو بروئے کار لانے کے عملی مظاہر دنیا کے سامنے پیش کئے۔ ii۔سہ روزہ عالمی کانفرنس کے سکالرز/مقالہ نگار اور روحانی شخصیات اور جملہ شرکاء اس امر سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ خانقاہی نظام کی اُس حقیقی روح کو زندہ کیا جائے، جس کے سبب خانقاہ علوم ومعارف کا مرکز اور تعلیم وتربیت کا منبع تھی۔ خانقاہ جس قدر مضبوط ہوگی تزکیہ و طہارت اور پاکیزگی و شرافت اسی قدر رواج پائے گی، جس کے سبب سوسائٹی مضبوط اور ریاست مستحکم ہوگی۔ اس کائنات میں ’’انسانیت سازی‘‘سب سے مشکل کام ہے۔حضرت داتا گنج بخشؒ اور دیگر کبار صوفیاء کرام نے لوگوں کے سیرت وکردار کو اسلامی منہج کے مطابق آراستہ کیا۔ آج جبکہ انسانیت تہذیبِ نو کے ہاتھوںمیں دم توڑ رہی ہے، تو لازم ہے کہ انسانیت سازی کا وہ ادارہ جو دنیا میں’’خانقاہ‘‘ کے نام سے معتبر ہے،۔۔۔ برصغیر میں حضرت داتا گنج بخشؒ نے جس کی بنیاد رکھی، اور جس کے سوتے تاجدار ختمی مرتبت ﷺ کے دَر سے پھوٹتے ہیں ،۔۔کے فیضان کو عام کیا جائے۔ iii۔تصوف اصلِ دین بلکہ دین کی روح ہے ۔ عصرِ حاضر میں اس کی نت نئی توجیحات اور تعبیرات، جس کے سبب اس کو دین سے الگ ایک ایسا انسٹیٹیوشن بنانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے، جس کے مطابق تصوّف اور روحانیت کو شریعت سے متصادم اور متحارب کر کے پیش کیا جا رہا ہے، جو کہ قابلِ مذمت امرہے۔ حضرت داتا صاحبؒ نے ایک ہاتھ میں شریعت اور ایک میں طریقت۔۔۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سنت کو تھامنے کی تلقین فرمائی ،اسی پر کاربند رہنا اُمّتِ مسلمہ کے لیے فلاحِ دارین کی ضمانت ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کا نظریۂ اخلاق وتصوّف ۔۔۔ دین و شریعت کی توقیر اور ترویج پر یقین رکھتا ہے، اس عالمی کانفرنس کے مندوبین اسی نظریہ اور فکر کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔ iv۔برصغیر کی ہزار سالہ درسیات کی تاریخ میں ’’تصوف‘‘بنیادی مضمون کے طور پر ہمارے مدارس اور مکاتب میں نصاب کا باقاعدہ حصہ تھا ۔ جس کے نتیجے میں فتوحاتِ مکیہ، عوارف المعارف، کشف المحجوب ، فصوص الحکم اور نقد النصوص وغیرہ کتب تصوّف، دینی مدارس میں سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی تھیں۔ بدقسمتی سے ڈیڑھ سو سال قبل جب موجودہ درس نظامی کی تشکیل عمل میں آئی، تو اس وقت ان امہات کتب تصوف کی تدریس ختم کر دی گئی ۔جس سے طلبہ محض ظاہری علوم کی حد تک محدود رہ گئے۔ ’’اخلاق وتصوّف ‘‘کا وہ مطالعہ جوانفرادی شخصیت کو سنوارنے اور اجتماعی نظام کو اعلیٰ روحانی اقدار سے روشناس کروانے کا باعث تھا، اس سے محرومی نے صاحبانِ محراب ومنبر اور اربابِ مسندِ تدریس کو حکمت ، برداشت اور حوصلہ کی بجائے مناظرہ ومجادلہ کی طرف زیادہ مائل کر دیا ہے ، جس سے تشدّد آمیز رحجانات فروغ پا رہے ہیں۔ جس کے لیے ان کتب کے مطالعہ کا فروغ لازم ہے ۔ v۔آج قومی اور بین الاقوامی سطح پر ’’دینی مدرسہ سسٹم‘‘کو بے شمار چیلنجز در پیش ہیں ۔ ایک طرف دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تانے دینی مدارس سے منسلک کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے ، جبکہ دوسری طرف دینی مدارس کے فارغ التحصیل ۔ دورِ حاضرکے عصری تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کو تیار نہ ہیں۔ جدید عہد کے تناظر میں صاحبانِ محراب و منبر ، اصحاب سجادہ و ارباب مسندِ تدریس کو اخلاص ، محبت، رواداری، انسان دوستی اور تحمل و برداشت جیسے جذبوں سے سرشار ہونے کی اشد ضرورت ہے، جس کیلئے حضرت داتا گنج بخش ؒ کا وضع کردہ ’’صوفیانہ اندازِ فکر و عمل ‘‘اپنانا وقت کا اہم تقاضا ہے ، تاکہ موجودہ دور میں افتراق ، انتشار، انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے مفاسد کا قلع قمع ممکن ہو سکے۔ عالمی کانفرنس کے شرکاء نے اس امر کا مطالبہ بھی کیا ہے کہ کشف المحجوب سمیت اُمہات کتبِ تصوّف کو دینی درسیات کا حصّہ بنایا جائے، جبکہ رسمی نصاب تعلیم میں حضرت داتا گنج بخشؒ کی حیات بخش تعلیمات کو شامل کیا جائے۔