جن دنوں جرمن طیارے لندن کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے‘ ہٹلر کی فوجیں برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھیں برطانوی میڈیا بالخصوص بی بی سی روزانہ بلیٹن جاری کرتا‘ جس میں برطانوی عوام کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے انگریزی فوج کی پیش قدمی اور فتوحات کے روائتی دعوے شامل ہوتے۔ اردو کے ممتاز شاعر نے صورتحال پر ملفوف طنز کیا‘ لکھا ع فتح انگلش کی ہوتی ہے‘قدم جرمن کے بڑھتے ہیں یہی صورتحال اس وقت اپوزیشن کی ہے مولانا فضل الرحمن نے خیالی پلائو پکایا آزادی مارچ کا اعلان کیا تو عمران خان کے مخالف سیاستدانوں اور خدا واسطے کا بیر رکھنے والے تجزیہ کاروں و دانشوروں نے آزادی مارچ کو انقلاب کا پیش خیمہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ آزادی مارچ اور دھرنا مولانا فضل الرحمن نے کوئی ایک بے ضرر مطالبہ منوائے بغیر ختم کر دیا‘ پلان اے اور بی کی ناکامی کے بعد رہبر کمیٹی کے کاندھے پر رکھ کر توپ چلائی کہ شاہراہوں کی بندش ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے‘ تو لوگوں کوتوتا توپ چلائے گا کا محاورہ یاد آیا‘ کون سی بندش اور کہاں کا پلان بی؟سادہ لوح عوام کو تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ مولانا اسلام آباد سے بہت کچھ لے کر نکلے اور اگلے سال(2020ء ) مارچ میں آزادی مارچ کے ثمرات سامنے آئیں گے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ مولانا کا پلان اے کامیاب رہا تو بی پر عملدرآمد کی نوبت کیوں آئی اور اب سی کا مژدہ کیوں سنایا جا رہا ہے‘ قوم سادہ لوح ضرور ہے مگر ہمارے سیاسی و مذہبی رہنمائوں سے زیادہ میڈیائی جادوگر اسے گائودی ‘ہونق اور عقل و شعور سے پیدل سمجھتے ہیں کبھی سوچا نہ تھا۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے مُنہ سے نکلا تو یار لوگ اس بے معنی و بے مصرف جملے کو ملک میں سول بالادستی کی عظیم‘ تاریخی اور بے نظیر و بے مثال جدوجہد کا نقطہ آغاز قرار دے کر جھوم اٹھے ‘درباریوں نے عزیمت‘ پامردی اور سرفروشی کے ایسے ایسے مضمون باندھے کہ استاد ذوق زندہ ہوتے تو سر پیٹ لیتے‘ میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ جلد صحت یاب کرے‘ سزائوں‘ مقدمات اور جیل کی صعوبتوں سے گھبرا کر بیمار پڑے تو ان کے علاج معالجے پر توجہ دینے کے بجائے یہ کہا جانے لگا کہ قائد محترم مرتے مر جائیں گے مگر عدالتوں میں اپیل کریں گے نہ ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لئے حکومت سے درخواست۔ بیرون ملک جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر انہوں نے رضا کارانہ جلاوطنی اختیار کرنا ہوتی تو ملک میں واپس ہی کیوں آتے؟۔ میاں صاحب نے خود متعدد بار کہا کہ اگر انہیں کسی عدالت سے سزا ہوئی تو اپیل نہیں کریں گے جبکہ وہ یہ بھی فرماتے رہے کہ انہیں ملک سے باہر رہنے کا مشورہ دیا جاتا رہا جو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ مگر جوں ہی موقع ملامیاں صاحب نے اپنے ان بڑبولے مداحوں اور اسٹیبلشمنٹ و عمران خان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے ’’انقلابیوں‘‘ کے جال میں پھنسنے کے بجائے عملیت پسند سیاستدان کی طرح وہ سارے کام کئے جو ان کے اور ان کے خاندان کے مفاد میں تھے۔2000ء کی طرح وہ ایک بار پھر بیرون ملک سدھار گئے۔ کمال یہ کیا کہ انہوں نے جان لیوا بیماری کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو بھی نہ بخشا۔ وی وی آئی پی طیارے میں سوار ہوتے ہی اپنے کسی ساتھی کی مدد سے ایک تازہ تصویر وائرل کرا دی جس میں میاں صاحب صحت مند ‘تروتازہ‘ ہشاش بشاش ‘ چاک وچوبند نظر آ رہے ہیں‘ سامنے انگوروںکی ٹوکری دھری ہے اور کوئی بدذوق و بدنظر ہی انہیں شدیدبیمار قرار دے سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ تصویر دیکھ کر مخالفوں کے سینے پر سانپ ضرور لوٹا اور انہوں نے شوگر و امراض قلب کے مریض کی انگور خوری پر دل کے پھپھولے پھوڑے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی پر تبصرے جاری ہیں اور دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں کسی کو نظام عدل پر غصہ ہے اور کوئی دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے کا مذاق اڑا رہا ہے ‘وزیر اعظم بھی پیر کے روز جلسہ عام میں برس پڑے مگر یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ ذات پات چھوت چات کے اس معاشرے میں قانون مکڑی کا جالا ہے جس میں صرف کمزور ہی پھنس سکتا ہے‘ طاقتور اُسے روند کر جب چاہے نکل جاتا ہے ۔حضور اکرم ﷺ کا یہ فرمان گرامی ’’پچھلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ ارتکاب جرم پر کمزوروں کو سزا دیتی اور طاقتوروں سے درگزر کرتی تھیں‘‘ علماء واعظین اہل قلم‘دانشوروں اور سیاستدانوں نے عوام کے جذبات ابھارنے اور ان کے دلوں کو گرمانے کے لئے ازبر کر رکھا ہے عمل کا کبھی سوچا نہ ارادہ کیا‘ بطور قوم ہمارا تو اجتماعی منشور اور شعور بس یہ ہے ؎ امیر دا مر گیا کُتا ‘تے سارا پنڈ نہ سُتا غریب دی مر گئی ماں‘ کوئی نئیں لیندا ناں امیر اور طاقتور کا بلڈ پریشر ہائی ہو تو اس کے غم میںہم مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کے لئے کڑیل بیٹے قربان کرنے والی مائوں کا دکھ بھول جاتے ہیں‘ پاکیزہ کردار خواتین کی عصمت دری کی خبریں یاد نہیں رکھتے اور بھارتی فوج کے وحشیانہ مظالم کو پس پشت ڈال کر حکومت کے جبر و ستم کی داستانیں بیان کرنے لگتے ہیں‘ ایک سزا یافتہ شخص کو آئین‘ قانون‘ قواعد و ضوابط ردی کی ٹوکری میں ڈال کر فی الفور باہر نہ بھیجنا ظلم نہیں تو کیا ہے‘ جبر اور انتقام اور کس چڑیا کا نام ہے۔وغیرہ وغیرہ میاں صاحب نے باہر جاتے ہوئے اپنی پارٹی کے کسی رہنما سے ملنا‘ صلاح مشورہ کرنا گوارا کیا نہ اپنے سرفروش کارکنوں کو دیدارکرایا اور نہ میڈیا سے بات کی جو جاتی امرا اور لاہور ایئر پورٹ پر ان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ تھے‘تسلی کے چند حرف سننے کے لئے بے تاب ‘ 2000ء میں روانگی رات کے اندھیرے میں تھی اب دن دیہاڑے ہوئی مگر مجال ہے کہ کسی متوالے کو قریب پھٹکنے دیا گیا ہو اس کے باوجود پارٹی اور میڈیا میں ان کے سرفروش بدمزہ ہیں نہ اپنے آپ سے شرمندہ ‘یہ ڈھٹائی نہیں اظہار وفاداری ہے مریم نواز شریف کی خاموشی‘ میاں شہباز شریف کی برادر بزرگ کے ساتھ طویل عرصے کے لئے ملک سے غیر حاضری اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفے پر کوئی سوال اٹھ رہا ہے نہ شریف خاندان کی سیاست سے دستبرداری اور مسلم لیگ کے معاملات چار رکنی کمیٹی کے سپرد کرنے کے فیصلے پر کسی کو تبصرے و تجزیے کی توفیق ہے مولانا کی طرح شریف خاندان نے انقلاب پسندوں کو اپنے حلقہ احباب اور اہل خانہ کے سامنے شرمندہ کرایا‘ کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا مگر پریشان انہیں عمران خان دکھائی دے رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور شریف خاندان کے کوئیک مارچ کا غصہ بھی حکومت پر نکالا جا رہا ہے’’مارچ 2020ء آنے دو‘‘ کہہ کر خفت مٹانے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ چار ماہ بعد پھروہی ہوا جو پچھلے پندرہ بیس دنوں کے دوران دیکھنے کو ملا تو نئی سازشی کہانی کیا گھڑیں گے؟ اس دوران امکانی طورپر مریم نواز شریف بھی والد محترم کی عیادت اور اپنے علاج کے بہانے انگلستان سدھار جائیںگی۔ سنا ہے جینٹک ٹیسٹوں کی طرح بون میرو کا علاج پاکستان میں نہیں۔ 2000ء میں شریف خاندان کوخدا کا گھر دیکھنے کی تمنا تھی اب خدا کی شان دیکھنے کی خواہش غالب آئی‘ میاں شہباز شریف قابل داد ہیں سیاست پر چار حرف بھیج کر بھائی کو مصیبت سے نکالا اور مسلم لیگ (ن) کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جیسے بے مصرف نعرے سے نجات دلائی جس کا حاصل خجل خواری کے سوا کچھ نہ تھا۔ کوئلوں کی دلالی میں مگر مولانا فضل الرحمن اور انہیں بانس پر چڑھانے والوں کے ہاتھ کیا آیا؟ عمران خان ایک گیند سے دو کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے نکلا تھا‘ مذاق اڑا مگر کوئی مانے نہ مانے کئی کھلاڑی آئوٹ ہو چکے اننگز جاری ہے۔ مارچ بھی دور نہیں۔ دیکھ لیتے ہیں۔