ملکی معیشت کی صورتحال میں دن بدن تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے،مارکیٹ سے مسلسل منفی خبریں مل رہی ہیں،ایک بار پھر ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے اور روز بروز ہو رہی ہے۔ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے،اس وقت ڈالر 228 تک جا پہنچ چکا ہے ۔شہباز حکومت کو تین ماہ ہو چکے اس دوران پٹرول بڑھا، ڈیزل بڑھا، ڈالر بڑھا، گیس بڑھی، بجلی بڑھی لیکن معیشت نہ سدھری۔ موجودہ حکومت کے دوران ڈالر اب تک40روپے بڑھ چکا ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے جتنی بھی امپورٹڈ چیزیں ہیں وہ مہنگی ہو جاتی ہیں اور روپے کی قدر میں کمی سے بیٹھے بٹھائے بیرونی قرضے بڑھ جاتے ہیں، ڈالر کی قدر میں دو روپیہ اضافے سے بیرونی قرضے اڑھائی سو ارب بڑھ جاتے ہیں دوسری جانب صنعتکاروں اور بزنس مینوں کیلیے خام مال کی امپورٹ مشکل ہو جاتی ہے، اس وقت ملک کو ڈالر کی ضرورت ہے چاہے وہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی ہو یا امپورٹ بل کی ادائیگیاں کرنی ہوں ہر حال میں ڈالر درکار ہیں۔ بیرونی قرضوں میں دبائو کی وجہ سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ رہی ہے گزشتہ ماہ کے آخر میں چین سے 2.3ارب ڈالر کے رول اوور کے با وجود اسٹیٹ بینک کے ذخائر9.8ارب ڈالر کی سطح پر ہیں دوسری جانب پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 15 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، اس کے علاوہ پچھلے مالی سال میں امپورٹ بل تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 80 ارب ڈالر سے تجاوزکر گیا تھا، پچھلے سال تجارتی خسارہ ریکارڈ 48 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ اس کے علاوہ سیاسی خلفشار کی وجہ سے گزشتہ مالی سال میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم بمشکل1.6 ارب ڈالر رہا تھا، روپے کی مسلسل گرتی قدر سے معیشت پر شدید منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو جو سب سے بڑی مشکل پیش آرہی ہے، وہ روپے کی مسلسل گراوٹ ہے 11 اپریل سے آج تک انٹر بینک میں روپیہ کی قدر کا جائزہ لیں تو ڈالر 182سے 228 روپیہ ہو چکا ہے روپے کی گرتی قیمت نے کاروباری برادری کا بھی سارا حساب کتاب بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈالر مہنگا ہونے سے اگلے دو تین ماہ میں مہنگائی میں مزید25سے30فیصد اضافہ ہو گا۔ اس وقت پاکستانی تاجروں کا مقابلہ بنگلہ دیش،انڈیا،ملایشیا سے ہے اس کا کیسے مقابلہ کیا جائے گا۔ ایکسپورٹر کا بھی کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہمارے لیے بھی بہتر نہیں ہے ایکسپورٹر کو فائدہ صرف اور صرف سنگل ٹرانزیکشن میں ہوتا ہے اور وہ بھی اس وقت ہو تا ہے جو پہلے ہی پرفارم کر چکے ہیں تاجروں نے جب ایل سی کھولی ہوتی ہے تو اس وقت 190یا200ڈالر پر کھولی ہوتی ہے جب مال آتا ہے ڈالر 210 یا 212 کا ہو چکا ہو تا ہے عالمی سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری سے کتراتے ہیں جہاں کرنسی عدم استحکام کا شکار ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں تین ماہ میں کرنسی15سے20فیصد گرجائے وہاں عالمی انویسٹر کیوں سرمایہ کاری کرے، جب کرنسی گرتی ہے تو فارن انویسٹر اپنا سرمایہ نکال کر لے جاتا ہے کیونکہ اسکا کیپیٹل کم ہو جاتا ہے، اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تین ماہ کے دوران عالمی انویسٹرز نے اسٹاک ماکیٹ سے ایک کروڑ 57لاکھ ڈالر کا سرمایہ نکالا۔ درآمدات پر منحصر پاکستانی معیشت کیلیے روپے کی قدر میں گراوٹ بھی مہنگائی کا اہم جواز ہے۔ اسٹیل مصنوعات بجلی کی پیداوار کے ایندھن سمیت کھانے پینے کی بیشتر اشیا امپورٹ کی جاتی ہیں اور مہنگا ڈالر ان تمام اشیاء کے دام خود بخود بڑھا دیتا ہے، چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کی شرح بڑھا رہا ہے حکومتی اعدادو شمار کے مطابق مہنگائی کی رفتار 13فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جب ڈالر کی قیمت بڑھی تو پٹرولیم مصنوعات جس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے، جس سے اور کئی چیزیں جڑی ہوئی ہیں تو وہ کاسٹ آف ڈوئینگ بزنس بڑھتی جاتی ہیں، مہنگائی بے لگام ہو تی ہے تو اسٹیٹ بینک بھی حرکت میں آتا ہے قیمتوں میں کنٹرول کیلیے شرح سود میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں مرکزی بینک نے شرح سود15 فیصد تک کردی مہنگائی کو روکنے کیلیے جب شرح سود میں کیا جاتا ہے تو اس سے معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے، جس سے ملازمت کے مواقع ماند پڑنا شروع ہو جاتے ہیں روپے کی قدر میں گراوٹ سے بیرونی قرضوں میں بیٹھے بٹھائے اضافہ ہو جاتا ہے، روپیے کی گرتی قدر کی بڑی وجہ بین الاقوامی ادائیگی اور وصولیوں کے درمیان بڑھتا فرق ہے رواں کھاتوں کا یہ خسارہ پچھلے مالی سال کے 11 ماہ میں 15 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرچکا ہے عالمی ادائیگیوں کا زور نہ صرف روپیہ کو کمزور کر رہا ہے بلکہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو بھی نگل رہا ہے جو موجودہ حکومت کے تین ماہ میں 17 ارب ڈالر سے کم ہو کرپندرہ ارب 74کروڑ ڈالر رہ گے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی چیلنجز کے علاوہ ڈالر کی قدر میں اضافہ کی ایک وجہ بین الاقوامی سطح پر امریکی کرنسی کا دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں بھاری پڑنا بھی ہے امریکی مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں متواتر اضافے کی توقعات سے ڈالر انڈیکس 20 سال کی بلند ترین سطح 108پوائنٹ سے تجاوز کر گیا ہے،شدید بحران میں پھنسی ہوئی پاکستانی معیشت کیلیے کچھ اچھی خبریں بھی رہیں پہلے نمبر پر عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گریں اور مسلسل گر رہی ہیں، یہ قیمت 94ڈالر تک آ گی ہیں اور 25 ڈالر کم ہوئی یہ اچھی خبر پاکستانیوں اور حکومت کیلے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی اس سے پہلے حکومت ایک ماہ میں پٹرول کی قیمت میں 100 اور ڈیزل کی قیمت میں145 روپے اضافہ کیا ایک عالمی سطح پر قیمتیں کم ہو ئیں تو حکومت نے بھی یہ فائدہ عوام کو دیا اور پٹرول18 اور ڈیزل38 روپے کم کیا- یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ عالمی منڈی میں زرعی اجناس اور خوردنی تیل کی قیمت بھی کم ہو رہی ہے اس کے علاوہ وہ خبر جس کا پوری قوم کو شدت سے انتطار تھا وہ یہ کہ آخر کار پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے بعد پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر ملیں گے پرو گرام کے تحت کل ادائیگی 4ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی پاکستانی معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے آئی ایم ایف پرو گرام کی بحالی بہت ضروری تھی اگرچہ آئی ایم ایف کی شرائط انتہائی سخت تھیں اور اس پر عمل در آمد سے مہنگائی میں اضافہ ہو ا ہے آئی ایم نے پاکستان کو بجلی،گیس اور ایندھن کے صارفین کیلیم سبسڈی ختم کرنے کا بھی کہا اور ان اقدامات سے حکومت کی عوامی مقبولیت دائو پر لگ گی۔ اب پاکستانی معیشت کوآئی سی یو سے نکالنے کی امید پیدا ہو ئی ہے اب دوست ممالک سعودی عرب،امارات، اور دوسرے ممالک اپنے قرضوں کو بھی رول اوور کردینگے۔