پیپلزپارٹی کے شریک چئیرپرسن آصف زرداری کے حالات جیسے بھی ہوں لیکن حوصلے اور عزائم بلند رہتے ہیں۔ انکی پارٹی سکڑ کر اندرونِ سندھ تک محدو د وہوگئی ہے لیکن انہوں نے پُورے پاکستان پر حکمرانی کے خواب دیکھنا نہیں چھوڑے۔ اگر دیہی سندھ میں بھی غیرجانبدارانہ‘ صاف شفاف الیکشن ہوجائیں تو پیپلزپارٹی کوشائد اتنی نشستیں بھی حاصل نہ ہوں جن پر وہ قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ لیکن عظمت کے خواب زرداری صاحب کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اگلے روز ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگوں نے ان سے مدد مانگی کہ وہ’ ملک چلانے کا فارمولا دیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بات سیدھی ہے کہ پہلے موجودہ حکمرانوںکی چھٹی کراؤ‘ پھر ہم سے بات کرو تو ہم ملک سنبھالیں گے۔ ‘ ظاہر ہے کہ یہاں آصف زرداری نام لیے بغیر ریاستی اداروں کے نمائندوں کی طرف اشارہ کررہے تھے جنہوں نے ملکی حالات پر ان سے مشاورت کی ہوگی۔ ریاستی ادارے ملکی حالات کی تفہیم کے لیے تمام سیاسی کھلاڑیوں سے پس پردہ ملاقاتیں اور بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ملاقاتوں کی تفصیل عام طور سے پبلک میں بیان نہیں کی جاتی لیکن آصف زرداری نے اسے خفیہ نہیں رکھا بلکہ اپنی اہمیت کا تاثر دینے کیلیے صلاح مشورہ کو کھلے عام بیان کردیا۔چونکہ زرداری کی ساکھ اور شہرت ملک بھر میںاچھی نہیں اسلیے یہ تاثر دینا ان کے مفاد میں ہے کہ وہ اتنے دانشمند اور ناگزیر ہیں کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ریاستی ادارے اُن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ زرداری کی اہمیت یہ نہیں ہے کہ وہ ملک کو بحران سے نکال سکتے ہیں بلکہ وہ اس لیے اہم ہیں کہ اندرون ِسندھ کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت کے قائد ہیں۔ریاستی اداروں کیلیے سندھ کو مستحکم رکھنے کی خاطر پیپلزپارٹی سے مشاورت کرتے رہنا ضروری ہے۔ کون دانشمند ہوگا جو پیپلزپارٹی اور آصف زرداری کوملکی مسائل کے حل کی ذمہ داری سونپنا چاہے گا؟ آج ملک جن سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے ان کے پیدا کرنے میں ا س پارٹی کا اہم کردار ہے۔ پیپلزپارٹی کی گزشتہ وفاقی حکومت کے زمانے میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں روزانہ بجلی کی بارہ سے بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ لوگ یہ مصیبت ابھی تک نہیں بھولے ۔ اسی زمانے میں رینٹل پاور پلانٹس کے نام سے مہنگی ترین بجلی کے منصوبے لگانے کی کوشش کی گئی تاکہ حکمران لمبا ہاتھ مار سکیں۔اس سے پہلے انیس سو نوّے کی دہائی میں پیپلزپارٹی نے بجلی کے مہنگے نجی منصوبوں (آئی پی پیز) کے معاہدے کیے جن کی قیمت قوم آج تک ادا کررہی ہے۔ ان منصوبوں سے مہنگی بجلی حاصل کرو یا نہ کرو لیکن حکومت کو نجی کمپنیوں کو ڈالروں میںمقررہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے ہی پاکستان میں صنعتی ترقی کا جنازہ نکالا جب ذوالفقار علی بھٹو نے صنعتوں‘ بینکوں‘ انشورنس کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے کر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ بھٹو نے پارٹی بنانے والے ترقی پسندوں کو چن چن کر جماعت سے باہر نکالا اور قوم پر جاگیرداروں کو مسلط کردیا۔ اپنے ہر مخالف کو جیل پہنچایا۔بھٹو اتنے جمہوریت پسند تھے کہ ایک بار بھی بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے۔ یہی حال بے نظیر بھٹو کا تھا جنہوں نے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے کیونکہ اختیارات کی نچلی سطح پر عوام کو منتقلی جاگیرداروں‘ وڈٖیروں کے مفاد میں نہیں۔ گزشتہ تیس برسوں میں پنجاب میں ایک بڑا تاجر طبقہ اور مڈل کلاس وجود میںآچکی ہے ۔ پنجاب کی سماجی اور معاشی پروفائل بہت تبدیل ہوگئی ہے۔ یہاں کے لوگ اب جاگیرداروں‘ زمینداروں کو سیاسی قائد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سندھ صوبہ میں تیرہ برس سے مسلسل پیپلزپارٹی کی چھتری تلے جاگیردار برسرِاقتدار ہیں۔ جاگیر داروں ‘ وڈیروں پر مشتمل اس پارٹی نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا جو حال کیا ہے وہ ہر شخص کے سامنے ہے۔ شہر کوڑے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ گھریلو استعمال کے پانی کی قلت ہے۔ شہر کے گندے نالے صاف کروانے ‘ ان پر سے تجاوزات ختم کرنے اور پختہ بنانے کے لیے وفاقی حکومت کام کررہی ہے۔ شہر کی سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کے منصوبے وفاق بنوا رہا ہے۔صوبائی حکومت نے میونسپل حکومتوں کے اختیارات غصب کیے ہوئے ہیں۔ نسلی‘ لسانی تعصب کی بنیاد پر سرکاری ملازمتیں بانٹی جاتی ہیں۔ اردو بولنے والوں کے لیے حکومتی ملازمتوں کے دروازے تقریباًبند کردیے گئے ہیں۔ سفارشی بھرتیوں کی بنا پر پورے سندھ میں تعلیمی اداروں کا بُرا حال ہے۔ ایسے لوگوں کو اساتذہ کے طور پر رکھا گیا ہے جو پرائمری اور سیکنڈری سطح کی ریاضی پڑھانے کے اہل نہیں۔چاروں طرف بے پناہ کرپشن کا دور دورہ ہے۔ لیڈروں نے رشوت اور کمیشن خوری سے جو مال بنایا وہ لانچوں میں بھر بھر کر بیرونِ ملک بھجوایا گیا یا فیشن ماڈلز کے ذریعے ۔ خدا کی شان ہے کہ وہ لوگ جو اربوں‘ کھربوں روپے کی منی لانڈرنگ ‘ زمینوں پر قبضے اور آمدن سے زائد ناجائز دولت بنانے میں ملوث ہیںوہ ملکی مسائل کو حل کرنے کے دعوے دار ہیں۔ جب ان کے احتساب کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ لوگ سندھ کے لسانی‘ نسلی تعصب کو ابھار کر وفاق اور ریاست کے لیے مسائل کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا وزیراعلیٰ کہتا ہے کہ’ ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور نہ کرو۔‘ مطلب‘ ہم علیحدگی کی طرف جاسکتے ہیں۔ ایسی دھمکیاں دینے والے پاکستان کے مسائل کا حل کریں گے ؟ آصف زرداری کے خلاف مقدمات میں انہیں قانونی نظام کے سقم سے ریلیف ملا ہے۔ یہ مقدمات ملتوی ہوتے جاتے ہیں۔ تاخیر ہوتے ہوتے ایک ایسا وقت آتا ہے کہ گواہ زندہ نہیںرہتے یا اصل ریکارڈ غائب ہوجاتا ہے۔ ریاست بھی تساہل سے کام لیتی ہے کہ نسلی‘ لسانی آگ نہ بھڑکے۔ جو تھوڑی بہت یکجہتی ہے وہ قائم رہے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پیپلزپارٹی کی لسانی سیاست کے باعث کراچی میں لاوا پک رہا ہے۔ اگر سیاسی سمجھوتہ کے تحت کراچی اور حیدرآباد ایسے سندھ کے شہروں کو اختیارات نہیں دیے گئے اور ان کی آبادی کو انکے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا تو تشدد کی لہر اٹھے گی۔ جب پُر امن سیاسی معاہدہ کی راہ مسدود کردی جائے تو لوگ طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں نے بہت جدوجہد کرکے کراچی سے بدامنی کا خاتمہ کیا ہے لیکن پیپلزپارٹی اپنی پالیسیوں سے سندھ میں بدامنی کے نئے بیج بوچکی ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملات زیادہ خراب ہوں تمام سیاسی طاقتوں اور سول سوسائٹی کوسندھ میں مضبوط اور بااختیارمقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے کے لیے تحریک چلانی چاہیے۔ پاکستان اور سندھ کے سیاسی مسائل کا حل اختیارات اور اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنے میںہے۔ کرپٹ جاگیردار‘ وڈیرے مسائل پیدا کرنے والوں میں شامل ہیں ۔ مسائل حل نہیں کرسکتے۔