وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پچھلے بیس پچیس سالوںسے یعنی مسلم لیگ ن کے احیا سے لے کر اب تک اس جماعت کااصل چہرہ ہیں۔یہ وہ طوطا ہے جس میں بہت سوں کی جان بند ہے۔مسلم لیگ کے کارنامے اور کامیابیاں کا سہرا بھی ان کے سر ہے اور مسلم لیگ ن کے مسائل اور مصائب کی وجہ بھی وہی ہیں۔جیسے دھوم دھڑکے سے ڈار آئے اور لائے گئے ان کے جماعت کے لیڈروں نے ہمیشہ اسی طرح دھوم دھڑکا کرتے قوم پر تین چار عشرے گزار لیے۔موجودہ حکومت کو آئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ریاست نہیں سیاست بچانے کا دھوم دھڑکا ختم ہو گیا۔ملکی خزانہ روز بروز گھٹتا گیا۔رکے ہوئے کنوئیں سے کتنی دیر پانی فراہم ہو سکتا تھا۔یہ کہانی بہت طویل ہے خود ہمارے دفتر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا جو اپنی کل پونجی قرض اتارنے اور ملک سنوارنے کے خوش کن اعلان کے وقت نثار کرنے کو بے چین تھیں۔اب اس واقعے کو ایک ربع صدی ہو چکی ہے۔قرض پچاس ہزار ارب تک پہنچ چکا ہے مگر اب بھی وہ قوم کو کہہ رہے ہیں کہ یہی ڈار ملک کی ترقی کے ضامن ہیں۔اب تو ملک کی اکانومی ایک ٹائم بم بن چکی ہے۔ ٹک ٹک جاری ہے اور سارے سانس روکے دھماکے سے بچاؤ کی تدبیر کر رہے ہیں۔اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اطلاع ہے مطابق آصف زرداری بذات خود وزیر اعظم کے پاس چینی کی برآمد کرنے کے لیے ان کو آمادہ کرنے گئے تھے مگر جانتے بوجھتے کسی طرح بھی چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے پر راضی نہیں تھے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل وہاں موجود تھے۔وزیر اعظم اچانک پانچ دس منٹ کے وہاں سے اٹھے تو آصف زرداری نے مفتاح اسماعیل سے کہا کہ آپ کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہے آپ ان کو سمجھائیں۔مفتاح نے جوابا کہا کہ میرے ہاتھ تو بندھے ہیں مگر میں تو ان کے سامنے ساری صورت حال رکھ دیتا ہوں۔یہی بات انہوں نے اور الفاظ میں اپنے آرٹیکل میں لکھ دی۔ Up until the 1980s, Pakistan was ahead of India in most economic indicators. Then, in the early 1990s, India dismantled its licence raj and shot past Pakistan. اور بنگلہ دیش کے بارے میں انہوں نے کسی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ income, exports, education, population control, life expectancy — in fact in almost all economic and social indicators.اب نوٹ کرنے والی یہی بات ہے کہ یہی عشرہ ان کی ممدوح ن لیگ پارٹی کے سربراہ خاندان کا ان ہونے کا بھی ہے۔ زر مبادلہ کہاں سے آنا تھا۔اوورسیز نے اپنا ہاتھ روک لیا۔امریکہ میں مقیم پاکستانی جن کو وہاں قیام کو پچاس سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور اتنے ہی عرصے سے وہ کسی پارٹی سے اپنا تعلق بھی استوار کر چکے ہیں وہ بلااستثنی ریپبلیکن ہوں یا ڈیموکریٹس اپنی پارٹی سے زیادہ وہ عمران خان کے گرویدہ ہیں۔وہ اس لیے کہ باہر مقیم پڑھا لکھا طبقہ اس ڈھول ڈھمکے اور دھوم دھڑکے کو کافی دیر سے جان چکا تھا۔ہر بار قوم کی تقدیر بدلنے کا کہہ کر اب بزبان خود اقرار کر رہے ہیں کہ پچھتر سالوں میں ہم کچھ نہ کر سکے۔ ایک دن قبل کینیڈا کی ایک کمپنی ’آرٹن کیپیٹل‘ نے اپنا نیا پاسپورٹ انڈیکس جاری کردیا ہے جس میں پاکستانی پاسپورٹ کو 94 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔نئے انڈیکس کے مطابق سبز پاسپورٹ رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو دنیا کے 44 ممالک میں ویزا آن ارائیول کی سہولت حاصل ہے ان چوالیس ممالک کے نام سن کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم سچ کہہ رہے ہیں ان میں برونڈی ، کیپ ورڈے، کوموروس، گنی بساؤ، مڈغاسکر، مالدیپ، موریطانیہ، نیپال، پلاؤ، روانڈا، سمووا، سیرا لیون جیسے ملک شامل ہیں۔ان ممالک کا تو کسی نے نام تک نہیں سنا۔رکیے کچھ اور ملک بھی ہیں جہاں پاکستانیوں کو ویزہ کی ضرورت نہیں ان میں بارباڈوس، ڈومینیکا، گمبیا، ہیٹی، مائیکرونیشیا، سینٹ وینسینٹ و گریناڈائنزاور ٹرینڈاڈ اینڈ ٹوباگو شامل ہیں۔ جب کہ باقی ڈیڑھ سو ملکوں میں داخلے کے وقت جو غیر انسانی سلوک ہوتا ہے اس کے ہم سب شاہد ہیں۔ نوجوان نسل ہم سے پوچھتی ہے کہ سن اکہتر میں کیسے پوری قوم دھوکا کھا گئی۔کیا کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا جو حالات کو کنٹرول کرتا اور اس سانحے سے ملک و قوم کو بچاتا۔جس کا حق تھا آخر اسے حق کیوں نہ دیا گیا۔ یہی کچھ اس وقت بھی ہو رہا تھا نہ آئین نہ آئین کی پاسداری۔عقل کل ہونے کا زعم تھا کہ اترتا ہی نہیں تھا۔اسکندر مرزا کے پاس رات کو چار جرنیل آئے تھے۔تین تو واپس چلے گئے میجر جنرل شیر بہادر وہیں ایوان اقتدار میں رک گئے۔ ایک گھنٹے کے بعد جنرل ان کو ناہید مرزا کے ساتھ لے کر کیماڑی کے ہوائی اڈے پر پہنچا۔کیا طاقت تھی کہ دونوں کو پاکستان بدر ہونے سے پہلے بلوچستان میں ایک گورنمنٹ افسر کے گھر کئی دن قیام کروایا گیا۔اب بھی کئی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔نہ ہم اس وقت کچھ کر سکے تھے نہ نئی نسل کے بس میں کچھ ہے۔زر مبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر مگر انداز حکمرانی سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی فکر نہیں۔ٹائی ٹینک ڈوبنے والوں کو بھی اپنی قسمت کا اندازہ کیا یقین ہو گیا تھا۔ ٹائم بم نے اپنا وقت مقرر کر رکھا ہے۔یہ قیامت کی طرح اٹل ہے۔اس کی ٹک ٹک موت کی ٹک ٹک ہے جو لحظہ بہ لحظہ نزدیک سے نزدیک آ رہا ہے۔اس کی ٹک ٹک کا ایک ہی پیغام ہے جو عوام کہتے ہیں وہی حق ہے۔یہی تاریخ کا سبق ہے مگر یہ سبق لینے والا بھی تو کوئی ہو۔ معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اس ٹائم بم کو ناکارہ بنانے کا واحد طریقہ فوری اور منصفانہ الیکشن ہیں۔