یہ چھ برس پہلے کی بات ہے ،میں کراچی کی تھکا دینے والی زندگی سے عاجز آکر اسلام آبادآنے کے لئے پر تول رہا تھا، یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن کراچی میں پانی، بجلی ،ٹریفک ،صفائی ستھرائی کے مسائل نے زندگی مشکل ترین بنا رکھی تھی۔ میں اسلام آباد کا حال احوال لینے کے لئے آیا اور اپنے دوست بریگیڈئیر باسط کو اپنی آمد کی اطلاع دی ، سندھ رینجرز میں انکے پاس لیاری ،رنچھوڑ لین جیسے ہنگامہ خیز علاقے تھے ،انہی دنوں باسط بھائی سے مراسم ہوئے جو دوستی میں بدل گئے ،وہ کراچی سے راولپنڈی آگئے تھے اور اب وہ ملنے آرہے تھے، میں باسط بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور سیٹ بیلٹ باندھ کر گاڑی آگے بڑھا دی میں نے ازراہ مذاق کہا کہ آپ بھی پولیس سے ڈرتے ہیں ؟میرا واضح اشارہ ان کے یوں سیٹ بیلٹ باندھنے کی طرف ہی تھاانہو ں نے میرے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے جواب دیا کہ آپ بھی باندھ لیں یہ ہماری ہی سکیورٹی کے لئے ہے اور دوسرا یہ کراچی نہیں یہاں کی پولیس مختلف ہے، پچھلے دنوں میرے ڈرائیور کا سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پرپانچ سو روپے کا چالان ہوچکا ہے ،اسلام آبا دکی ٹریفک پولیس واقعی کراچی سے بہت مختلف اور بہتر ہے۔ مجھے اسلام آباد میں تین برس ہوچکے ہیںان تین برسوں میں ،ٹریفک پولیس نے مجھے دوبار ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر روکاخلاف ورزی معمولی نوعیت کی تھی اس لئے وارننگ دے کر چھوڑبھی دیالیکن آج تک کسی نے ’’چائے پانی ‘‘ کا تقاضہ نہیں کیا ۔ اسلام آبا د کو چھوڑیئے آپ ڈرائیونگ کرتے کرتے جیسے ہی موٹرویزپر آتے ہیں جھٹ سے سیٹ بیلٹ باندھ لیتے ہیں، ایکسیلیٹر پر پاؤں کے دباؤ کے ساتھ ساتھ رفتار کے کانٹے پر نظر رکھنا نہیں بھولتے کہ جانتے ہیں رفتار حد سے بڑھی تو موٹر وے پولیس نے بڑھ کر چالان کاٹ دینا ہے اور کس قدر عجیب بات ہے کہ موٹر وے کے آس پاس دائیں بائیں شہروں کی سڑکوں پر ہمارے اپنے قانون اوراپنی مرضی ہوتی ہے جیسے ہی ٹول پلازہ عبور کر کے کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو ٖڈرائیور سب سے پہلے سکھ کا سانس لیتے ہوئے سیٹ بیلٹ کی قید سے آزاد ہوتا ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ موٹر وے پولیس والے ہماری ہی سوسائٹی سے ہیں یہ دبئی ،انگلینڈ سے نہیں آتے یہ یہیں ہمارے اسکولوںکالجوں سے پڑھ کر موٹر وے پولیس کی وردی پہنتے ہیں لیکن یہ اتنے مختلف کیوں ہوتے ہیں؟مجھے یاد ہے ایک بار والدہ کی طبیعت خراب تھی سفاری پارک کے سامنے اسپتال کا ایڈمنسٹریٹر دوست تھا اس سے ذکر کیا کہ ڈاکٹر سے وقت لے دو تو اس نے نہ صرف وقت لے دیا بلکہ گھر پر ایمبولینس بھی بھیج دی، چیک اپ کے بعد واپسی پر ایمبولینس ڈرائیور نے لیاری ایکسپریس وے کا انتخاب کیا، 38کلومیٹر طویل یہ ایکسپریس وے موٹر وے پولیس کے پاس ہے بے جوڑ اور کشادہ روڈ پر ایمبولینس ڈرائیور نے رفتاربے فکری سے رفتار بڑھا دی کہ بھلا ایمبولینس کو کون چیک کرتا ہے لیکن وہاںموٹر وے پولیس کا ایک سب انسپکٹر پیچھے لپکا اور ایمبولینس کو ایک طرف رکوا دیا اسے شک ہوا تھا کہ ایمبولینس کو کوئی ایمرجنسی نہیں ،انسپکٹر نے ڈرائیور کو باہر بلایا اور تیز رفتاری کی وجہ پوچھی، ڈرائیور نے جانے کیا کہا کہ وہ میرے پاس آگیا اور سلام کے بعد پوچھنے لگا کہ سر آپ کو کوئی ایمرجنسی تو نہیں میرے انکار پر وہ چالان کرنے لگا میں نے بحیثیت صحافی کالم نگار اپنا تعارف کرایا کہ بیچارے ڈرائیور کی جلد جان چھوٹ جائے جس پر اس نے خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا سر! میں آپ کے کالم بہت شوق سے پڑھتا ہوں، اور فلاں ایس ایچ او کا بھائی ہوں ۔۔۔لیکن سر میں معذرت چاہتا ہوں چالان ہوگا اور چالان ہوا۔ بطور صحافی اپنے معاشرے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ پارلیمانی رپورٹر کی حیثیت سے سندھ اسمبلی کے طویل طویل سیشن کی کوریج بھی کررکھی ہے اور قانون سازوں کو قانون سازی بھی کرتے دیکھا ۔میں حیران ہوتا تھا جب اسمبلی میں کسی معزز ایم پی اے کو ڈھونڈ ڈھانڈقانو ن سازیاں کراتے دیکھتا تھا خیر سے رہائشی عمارتوں میں ہنگامی راستوں کے لئے زینوں کی چوڑائی سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کی مختص نشستوں میں بڑھوتری تک کے لئے قانون سازیاں ہوتے دیکھی ہیں۔ ہمارے ملک میں سڑک پر تھوکنے سے لے کر سڑک کنارے بول و براز کرنے تک پر قانون موجود ہے ،خواتین کو دیکھنے کے زاویے تک کو قانون پرکھ سکتا ہے، اس سب پر مستزاد دفعہ 144 جوشادی ہالوں کی بندش سے لے کر ساحل سمندر پر چہل قدمی رکوانے تک کے لئے نافذ کردیا جاتا ہے لیکن اسکے باوجود ہمارے ملک میں قانو ن کی کتنی عملداری ہے ؟ہم قوانین کا کتنا احترام کرتے ہیں اورقانون ہم سے اپنا کتنا ’’احترام‘‘ کرواتا ہے یہ جاننے کے لئے پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں ،گھر سے باہر نکل کر تازہ خالص دودھ تو لا کر دکھا دیں ،اینٹوں کی پسائی سے پاک سرخ مرچ تو خرید لائیںیہی قانون موٹر وے پولیس کے پاس بھی ہے اور دیگر شہروں کی ٹریفک پولیس کے پاس بھی، پھر ایک جگہ اسکا نفاذ اسکا احترام اور خلاف ورزی کا خوف ہے تودوسرے شہروں میں وہ ایسا کمزور عاجز اور مسکین کیوں؟ یہی بات میں نے پاکستان پولیس سروس کے اصول پسند آئی جی ذوالفقار چیمہ صاحب سے پوچھی ۔سوال سن کر مسکرا دیئے کہنے لگے قانون کا نفاذ ہی اصل قانون ہوتا ہے، کتابوں میں رکھا قانون تو صرف قانون کے طالب علموں کیلئے ہوتا ہے، انہوں نے کہاکہ قانون کے نفاذ کے لئے مثالیںقائم کی جانا ضروری ہوتی ہیں ،موٹر وے پولیس نے مثالیں قائم کیں میرے پاس شروع شروع میں کس کس کے فون نہ آئے لیکن میرے اصول نے سب کو پیغام دے دیا جس کے بعد راوی چین چین ہی لکھتا رہا ،یہ کام مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں بشرط کوئی ہمت کرے اور ہمارا اک مسئلہ حوصلے کا ہی توہے ہمیں چند سرپھرے چاہئیں اور یہ کہاں سے آئیں جو تبدیلی لائیں ،انتظار ہے یعنی ہنوزدلی دور است!