بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر طویل مدت سے حل طلب تنازعات کو خطے کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم خطے کے تنازعات کو حل کرنے کے لئے موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے خطے کی ترقی اور رکن ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کے لئے مقامی کرنسی‘ انفراسٹرکچرل روابط‘ ثقافتی ٹورازم‘ فوڈ سکیورٹی‘ انسانی بہبود اور وائٹ کالر جرائم کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے رکن ممالک کے سربراہان سے کہا کہ پاکستان کے پاس اپنے خواب حقیقت میں بدلنے کے تمام وسائل ہیںاور پاکستان پرامن بقائے باہمی کے اصول پر آگے بڑھنے کا خواہاں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقاتوں میں تجارت بڑھانے اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لئے کسی بھی ملک کی ثالثی قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایشیائی ممالک کی سب سے متحرک اورفعال تنظیم کے طور پر ابھری ہے۔ دو سال قبل پاکستان اوربھارت کو اس کی رکنیت دی گئی۔ چین اور روس کی قیادت میں شنگھائی تعاون تنظیم نے خطے کے ممالک کو انفراسٹرکچر اور مواصلات کے نظام کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس تنظیم کے اراکین میں ایسے ممالک شامل ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ توانائی خرچ کرتے ہیں۔ ان میں چین‘ بھارت اور روس شامل ہیں۔ تنظیم میں ایسے ملک بھی موجود ہیں جو تیل‘ گیس اور بجلی کی پیداوار میں خودکفیل ہیں۔کرغیزستان ‘ قازقستان‘ تاجکستان اور ازبکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے بنیادی مقاصد میں رکن ممالک کے درمیان سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوںمیں تعاون اور ٹرانسپورٹیشن‘ سیاست اورماحولیات کے حوالے سے ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔26اپریل 1996ء کو قائم ہونے والی اس تنظیم نے خطے میں مثبت تبدیلیاں لانے میں موثر کردار ادا کیاہے۔ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے اہم سیاسی و معاشی فوائد حاصل کر سکتاہے۔ ایس سی او پاکستان اور وسط ایشیا کے مابین پل کا کام دے سکتی ہے۔ پاکستان جون2017ء میں ایس سی او کا رکن بنا۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں بھارتی اثرورسوخ کے باعث دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات استوار نہیں کر سکا۔ بھارت نے سارک کو غیر فعال بنا کر دراصل پاکستان کے لئے مواقع محدود کئے۔شنگھائی تعاون تنظیم بھارت کے اثرورسوخ سے آزاد ہے۔ چین جیسا دوست اس تنظیم کا سرکردہ رکن ہے۔ اس سے پاکستان کے لئے آسانی پیدا ہوئی ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے کئے جانے والے پروپیگنڈے پر اپنا موقف مناسب انداز میں پیش کر سکے۔ پاکستان کے تین ہمسائے چین‘ بھارت اور ایران ایس سی او کے رکن ہیں۔ پاکستان قومی و بین الاقوامی سطح پر متعدد چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے پاکستان اور روس کے تعلقات میں خوشگوار بہتری آئی ہے۔ یہ امر لگ بھگ تمام رکن ممالک کے لئے تشویش کا باعث ہے کہ افغانستان کا تنازع حل کرنے میں امریکہ غیر ضروری تاخیر کر رہا ہے۔ خطے میں داعش جیسے خطرات موجود ہیں۔ روس چین اور پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات پر رضا مند کرنے کے لئے موثر کوششیں کرتے رہے ہیں۔ افغانستان سے انخلا کے معاملات پر سردست جو چیزرکاوٹ بن رہی ہے وہ انخلا کے بعد افغانستان پر امریکی کنٹرول ہے۔ امریکہ چاہتاہے کہ افغانستان میں اس کی مرضی کی حکومت بنے اور افغانستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امریکی خواہش کے مطابق تعلقات استوار کرے۔ پاکستان ایس سی او ممالک کو بحیرہ عرب تک راہداری فراہم کرنے کا قدرتی ذریعہ ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس کی سرزمین خطے میں تجارتی راہداری اور مشترکہ معاشی ترقی کے لئے استعمال ہو۔ گوادر کی بندرگاہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو اہم تجارتی مرکز فراہم کر سکتی ہے۔ پاکستان کی توانائی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ صرف گھریلو استعمال کی بات نہیں صنعتی اور زرعی مقاصد کے لئے بجلی مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہیں ڈیموں کی تعمیر وقت طلب کام ہے۔ فوری ضرورت پورا کرنے کے لئے کرغیزستان اورتاجکستان سے مدد لی جا سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا کی ترقی کو اگر کسی تنازع نے روک رکھا ہے تو وہ بھارت اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات ہیں۔ تنازع کشمیر 72برس سے موجود ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کی ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی آسودگی اور امن کو ترس چکی ہے۔ بین الاقوامی حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ عموماً تاریخ بہت کم مواقع دیتی ہے جب تنازعات کو پرامن طور پر طے کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بڑی صراحت کے ساتھ ایس سی او سربراہ اجلاس میں بتایا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک سے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے۔ اجلاس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چینی صدر سے ملاقات میں پاکستان کی شکایات کیں اور دہشت گردی کے پرانے الزامات دہرائے۔ چینی قیادت پاکستان اوربھارت کے باہمی تنازعات کی نوعیت سے آگاہ ہے۔ چینی صدر اس سلسلے میں ثالثی کی پیشکش بھی کر چکے ہیں جسے بھارت نے نظر انداز کیا۔ وزیر اعظم عمران خان جب خطے میں امن کے حوالے سے اپنی ترجیحات پیش کر رہے تھے تو بھارت کی مذاکرات نہ کرنے کی ضد اور پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کی رپورٹس بھی رکن ممالک کے حکام کے علم میں لائی گئی ہوں گی۔ بہرحال وزیر اعظم نے براہ راست بھارت کا نام نہ لے کر شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے گنجائش رکھی ہے کہ وہ تنازع کشمیر کے حل کے لئے دونوں ملکوں کو قابل قبول حل کے لئے آمادہ کر سکے۔ پاکستان کے پاس شنگھائی تعاون تنظیم کی شکل میں ایک متبادل بین الاقوامی نظام کا حصہ بننے کا موقع آیا ہے۔ اس موقع کا درست استعمال ہمارے کئی مسائل کا حل فراہم کر سکتا ہے۔