حکومت نے اپنی پہلی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر دیا ہے۔ صدارتی حکمنامے کے ذریعے نافذ کی گئی سکیم45روز کے لئے موثر ہو گی۔ اس مدت کے دوران ظاہر نہ کیے گئے اثاثے‘ آمدن‘ اخراجات اور غیر ملکی اثاثوں کو معمولی ٹیکس ادا کر کے قانونی بنایا جا سکے گا۔ کابینہ کی طرف سے منظور کی گئی ایمنسٹی سکیم میں ماضی کی سکیم کی نسبت ٹیکس محاصل کا تخمینہ شامل نہیں کیا گیا۔ اس سکیم سے تمام قسم کی کمیٹیاں‘ شراکت دار فرمز اور افراد صرف اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ حکومت نے پہلی بار نئی شرح کے ساتھ ٹیکس جمع کرانے کے لئے 30جون 2020ء تک مہلت دی ہے۔ تاہم یہ سہولت صرف ان افراد کو میسر ہو گی جو پہلے اپنے اثاثے ظاہر کریں گے۔ ملک میں اور بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کے لئے 4فیصد رقم بطور ٹیکس جمع کرانی ہو گی۔ سفید کیا گیا نقد دھن پاکستانی بینکوں میں رکھنا ہو گا جو لوگ سفید دھن کو بیرون ملک رکھنا چاہتے ہیں انہیں 6فیصد ادائیگی کرنا ہو گی۔ صدارتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ مقررہ مہلت کے دوران ایمنسٹی سکیم سے استفادہ نہیں کریں گے ان کی جائیدادیں سرکاری تحویل میں لے لی جائیں گی۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ اگر ٹیکس جمع کرنے کے سلسلے میں نظام جاتی نقائص دور نہ کئے گئے تو پاکستان کو پھر سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔ سابق حکومت نے جب ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی تھی تو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے بہت سے اثاثے پہلی بار معلوم ہو رہے تھے۔ ان اثاثوں کا ذکر کسی کے انتخابی گوشوارے میں نہیں تھا۔ سابق حکومت میں شامل کئی دوسرے لوگ بھی آف شور کمپنیوں کے ذریعے اربوں روپے کے اثاثے بنائے بیٹھے تھے۔ اگرچہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے ہر شہری مساوی طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ الزام مناسب نہیں کہ حکومت کسی ایک طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایسی سکیم لاتی ہے مگر پانامہ سکینڈل کی وجہ سے سابق حکومت کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا موجودہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے ان سے نجات کا چارہ کیا گیا۔ اس وقت عوامی جذبات حکومت کے خلاف تھے۔ حکومت کی ساکھ تباہ ہو چکی تھی کہ ہر شخص سمجھ رہا تھا کہ ملک سے زیادہ کچھ اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے ٹیکس ایمنسٹی سکیم لائی گئی۔ اسی وجہ سے عمران خان نے اس کی مخالفت کی اور یہ سکیم خاطر خواہ نتائج نہ دے سکی۔ کوئی ترغیب اس وقت تک مفید ثابت نہیں ہوتی جب تک اس کے ساتھ سزا کا دبائو نہ ہو۔ ماضی میں کئی بار کئی حکومتوں نے ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کا اعلان کیا، مقصد یہ ہوتا کہ معمول کے نظام کے ذریعے ٹیکس جمع کرنے کے جو اہداف پورے نہیں ہوئے ان کو ایسی سکیم کے ذریعے پورا کیا جائے ۔ہر بار ایسی مشق کا فائدہ ان طبقات نے اٹھایا جو بدعنوانی‘ ٹیکس چوری اور رشوت سے دولت جمع کرتے ہیں اور پھر اس ناجائز دولت کو ملک سے باہر لے جانے کے لئے زرمبادلہ کے محدود وسائل کو کچل دیتے ہیں۔ ہر سال اربوں ڈالر ہنڈی اور حوالہ والوں کے ذریعے یا اہم شخصیات کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان سے مسلسل سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے۔ ساری قوم مزدوری کر کے برآمدات کرتی ہے۔ ان کی فروخت سے جو ڈالر آتے ہیں وہ کوئی بدعنوان باہر منتقل کر دیتا ہے۔ حالیہ دنوں منی لانڈرنگ کے لئے جعلی اکائونٹس کھولنے کا معاملہ تشویشناک صورت میں سامنے آیا ہے۔ ٹیکس محاصل میں اضافے کے لئے ضروری ہے کہ سرمائے کی پرواز کو روکا جائے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے سابق سکیموں میں موجود کئی خامیوں کو درست کیا ہے۔ اس طرح یہ تاثر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا فائدہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کو ہو گا۔ صدارتی آرڈیننس میں مخصوص ٹیکس ادا کرنے کے بعد قانونی حیثیت والے نقد اثاثے پاکستانی بینکوں میں رکھنے کا کہا گیا ہے۔ اس طرح یہ پیسہ پاکستان میں پیداواری اور تجارتی سرگرمیوں پر خرچ ہو گا۔ اندرون ملک سرمائے کی گردش میں اضافہ ہو گا۔ کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور معیشت پر طاری جمود ٹوٹے گا۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرانے پر اپوزیشن حلقے حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ وہ یہ تاثر ابھارنے کی کوشش میں ہیں کہ ان کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم اور موجودہ حکومت کی ایمنسٹی سکیم میں کوئی فرق نہیں۔ خیر ایسے اعتراضات کا سیاسی انداز میں جواب دینا یا نہ دینا حکومت کی صوابدید ہے۔مگر پاکستان کے عوام سمجھتے ہیں کہ سابق حکومتوں کی ناکامی اور بری کارکردگی نے آج قوم کو اس بری حالت تک پہنچایا ہے۔ موجودہ حکومت میں شریک شخصیات اثاثے چھپانے کے جرم میں ملوث معلوم نہیں ہوتیں اس لئے اس سکیم کا مقصد کسی اپنے کو نوازنے کی بجائے سراسر ریاست کے مفادات کی حفاظت کرنا دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعظم کی مالیاتی ٹیم ایسے اقدامات کر رہی ہے جس کے ذریعے کاروباری برادری کو مایوسی سے نکالا جا سکے۔ چیئرمین ایف بی آر کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ انہیں ایک سال میں 600ارب روپے کے اضافی ٹیکس جمع کرنا ہیں۔ ٹیکس محصولات بڑھانے کے لئے وہ کاروباری لوگوں سے بات چیت شروع کر چکے ہیں۔ اس بات چیت کی روشنی میں انہوں نے ہدایت کی ہے کہ کسی اکائونٹ ہولڈر کا بینک کھاتہ اسے اطلاع دیے بغیر منجمد نہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں 600ارب روپے اضافی ٹیکس کی شق کو کاروباری طبقہ اپنے لئے متوقع بوجھ سمجھ کر خوفزدہ ہے۔ اس خوف کا اثر سٹاک مارکیٹ پر دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت کی کوششیں درست سمت بڑھ رہی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے واویلے کے باوجود کوئی تشویشناک سیاسی تحریک بنتی نظر نہیں آتی۔ بہرحال ایمنسٹی سکیم سے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ 45روز ختم ہوں تو چھپائے گئے اثاثوں کو ضبط کر لیا جائے۔ وہ لوگ بار بار ایمنسٹی سکیم کے مستحق نہیں جو عادی مجرم ہوں۔