پی ڈی ایم کی شکل میں ایک انمل بے جوڑ اتحاد ابتدائے آفرنیش سے ہی پکار پکار کر کہہ رہا تھا ع مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ماضی میں جتنے بھی سیاسی اتحادوجود میں آئے ‘ان میں نظریاتی ہم آہنگی کا فقدان ضرور تھا‘ شامل جماعتوں اور قیادتوں کا اپنا اپنا پروگرام اور ایجنڈا بھی کسی سے مخفی نہ تھا ‘مگر ان اتحادوں کی تشکیل سے پہلے کم از کم نکات پر اتفاق رائے اور یکساں بیانیے کی تشکیل کا کوہ ہمالیہ سر کر لیا گیا اور ان کم از کم نکات پر ہر جماعت کی قیادت اور کارکنوں میں یکسوئی پائی جاتی تھی۔ نیت کا کھوٹ تو ان اتحادوں میں بھی کارفرما رہا‘ اس کے باعث پی این اے سمیت کسی سیاسی اتحاد نے مثبت کامیابی حاصل نہیں کی ۔ماضی کے اتحاد بھی آخری ایام میں تضادات اور اختلافات کا شکار ہو کر بکھر گئے لیکن جو حشر پی ڈی ایم کا ہوا ‘اس کی ماضی میں آل پارٹیز ڈیمو کریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کے سوا کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ تو کبھی بھی نہیں ہوا کہ کوئی اتحاد تحریک کے پہلے ہی مرحلے میں باہمی اختلافات کا شکار ہو کر اپنی اہمیت اور افادیت کھو بیٹھے۔ اے پی ڈی ایم اور پی ڈی ایم میں صرف نام کی مماثلث ہی نہیں شریک جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے ذاتی ‘ گروہی اور خاندانی مفادات کی مطابقت بھی نظر آتی ہے‘ یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ اے پی ڈی ایم کو پیپلز پارٹی کی قیادت نے سبوتاژ کیا اور پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھیرنے کا کارنامہ بھی انہی مبارک ہاتھوں سے سرانجام پایا‘ ذاتی طور پر میں پیپلز پارٹی کی اس حرکت کو غیر جمہوری سمجھتا ہوں نہ معیوب۔ 2007ء میں بھی میاں نواز شریف اور ان کے عقاب صفت ساتھی جذباتی عدم توازن کا شکار تھے اور اب بھی وہ انتقامی جذبے سے مغلوب ‘ ہرچہ بادا بادکی پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘ مولانا فضل الرحمن کا معاملہ البتہ عجیب ہے۔ 2007ء میں ان پر عملیت پسندی کا غلبہ تھا اور اسی باعث انہوں نے اپنے رفیق کار قاضی حسین احمد کی پیٹھ میں خنجر گھونپا‘ جنرل پرویز مشرف کو وردی میں صدر منتخب کرانے کے لئے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا مگر اب ایک منتخب حکومت اور وزیر اعظم کو غیر جمہوری انداز میں گھر بھیجنے کے لئے استعفوں کا کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں‘ 1977ء کی طرح اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لاکر سٹریٹ پاور کے ذریعے منتخب پارلیمنٹ کی بساط لپیٹنے کے درپے ہیں۔ ع جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی ویسے تو ہر اتحاد سیاستدانوں کی ذاتی مجبوریوں اور سیاسی ضرورتوں سے جنم لیتا اور انہی کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر قصٔہ پارینہ بنتا ہے مگر ماضی میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے والے سیاستدان نوزائیدہ اتحاد پر نظریے‘ قومی ضرورتوں اور جمہوری مفاد کا لیبل لگانے کا تکلف کرتے اور اصل عزائم کم از کم اپنے کارکنوں اور جمہوری و شہری آزادیوں کے علمبرداروں سے پوشیدہ رکھنے میں کامیاب رہتے تھے مگر اس بار کسی نے یہ ضرورت محسوس کی نہ اتحاد اور بیانیے کی تشکیل میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی سعی فرمائی‘ یہ پہلا اتحاد ہے جو تشکیل کے کئی ماہ بعد بھی بنیادی نکات پر متفق نہیں اور ہر اجلاس میں پچھلے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کے بجائے ترمیم کی خفت اٹھاتا اور حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بتدریج اپنا سفر طے کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی کمزوریوں پر قابو پاتی ہیں۔ پی ڈی ایم نے مگر اونچائی ڈھلوان کے سفر کو ترجیح دی‘ جو مطالبات اتحاد کو پرہجوم اجتماعات اور عوامی بیداری کے بعد پیش کرنے کی ضرورت تھی وہ ابتدا ہی میں رائے عامہ ہموار کئے بغیر سامنے لائے گئے جبکہ میاں نواز شریف کو بھی جو تقریر لاہور کے جلسے میں کرنے کی ضرورت تھی وہ انہوں نے پی ڈی ایم کے پہلے جلسے یعنی گوجرانوالہ میں کر دی‘ جب مجھ ایسے کسی طفل مکتب نے سوال اٹھایا کہ میاں صاحب اگلی تقریر میں کیا کہیں گے اور ان کا اگلا مطالبہ کیا ہو گا؟ تو سول بالادستی کے علمبردار دوستوں نے برا منایا‘ مگر آج وہ سب کے سب تسلیم کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے جلسوں اور ریلیوں میں کوئی کشش رہی ‘نہ مطالبات میں وزن اور نہ میاں نواز شریف و مریم نواز کی تقریروں میں چاشنی باقی۔ نتیجتاً 31دسمبر کو عمران خان کی رخصتی کی حتمی تاریخ دینے والے بلاول جیسے کسی سیاستدان کی ساکھ باقی ہے نہ ان کی ہاں میں ہاں ملانے اور نئے سال میں پاکستان کا کوئی نیا حکمران دیکھنے کے خواہش کسی تجزیہ کار کے قول کا اعتباربرقرار‘ موجودہ اسمبلیوں کو ناجائز قرار دینے والے جمہوریت پسند ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر چکے اور ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں کی دھمکی دے کر ریاست‘ نظام اور حکومت کو بلیک میل کرنے والے سیاستدان لانگ مارچ اور دھرنے کی حتمی تاریخ دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں‘ ہوتے تو کوئی جھوٹی‘ سچی تاریخ دے کر عزت سادات بحال کرتے ۔ایک زرداری پورے پی ڈی ایم پر بھاری پڑ گیا ہے اور میاں نواز شریف و مولانا فضل الرحمن ’’شیطان اور گہرے سمندر کے درمیان‘‘ کھڑے ایک دوسرے کو حیرت و استعجاب سے دیکھ رہے ہیں۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ مولانا فضل الرحمن کو پچھلے سال نواز شریف اور زرداری کی بے وفائی کا تلخ تجربہ ہوا مگر عمران خان سے بدلہ چکانے کے جوش میں وہ یہ تلخ تجربہ بھول کر ایک بار پھر انہی عطار کے لونڈوں سے دوا لینے نکل پڑے جس کے سبب گزشتہ سال وہ بیمار ہوئے ‘سوچا تک نہیں کہ ان کی حکومت مخالف مہم میاں نواز شریف کی خوئے انتقام کی تسکین تو کر سکتی ہے آصف علی زرداری کے سیاسی مفادات کی تکمیل میں مددگار و مفید نہیں۔ سندھ حکومت ان کے پاس ہے اور پنجاب و خیبر پختونخوا میں حالات ان کے لئے سازگار نہیں‘ فوری انتخابات کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ وہ سندھ کا مینڈیٹ دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ‘ پھرانہیں جوا کھیلنے کی کیا ضرورت ہے‘ جس میں سندھ حکومت سے ہاتھ دھونے کے علاوہ ‘ مزید مصائب و مشکلات کا قوی امکان موجود ہے۔پی ڈی ایم کی خشت اول ہی ٹیڑھی رکھی گئی‘اتحاد کی تشکیل کا کوئی اخلاقی جواز نہ 2018ء کے انتخاب اور موجودہ پارلیمنٹ کے خلاف بیانیے کی اخلاقی ساکھ‘ اندرونی تضادات اور ایک دوسرے کے خلاف بغض ‘ عناد‘ بے اعتمادی ‘ بدگمانی سے بھر پور اتحاد کو ٹُھس ہونا ہی تھا‘ وقت سے پہلے ہو گیا ؎ اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا ورنہ تو کبھی مرا نہ تھا اور میں کبھی تیرا نہ تھا باقی ماندہ خوش فہمی سینٹ انتخابات کے موقع پر دور ہو جائے گی۔