ادیب کے ذمہ بہت ساری ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن سے اسے تخلیق کے وقت عہدہ برا ہونا پڑتا ہے۔اس تخلیق کے عرصے اور فرض کی ادائیگی کے دوران بہت سارے ممد اور غیر ممد عوامل تخلیق کے عقب میں موجود ہوتے ہیں۔جہاں سے اس کا شعور اپنا انتخاب اٹھا لیتا ہے۔ اس وئر ہاوس کو اجتماعی ورثہ کہتے ہیں۔ اسی عقب میں زبان بھی موجود ہوتی ہے جو اپنی ابتدا سے کر اب تک تخلیق کا وسیلہ اظہار ہے۔ تخلیق کار کو اس مال کی اپنی تخلیق کی بنت اور تکمیل کے دوران ضرورت پڑتی ہے۔یہ پینٹر کا برش ہے ایزل سٹینڈ ہے کینوس ہے اور رنگوں کی بوچھار ہے۔ جو سامان مصور کو رنگ مہیا کرتا ہے ادب میں یہ سب کچھ زبان ارزاں کرتی ہے۔خام مال کو زبان کے سانچے سے گزر کر ہی تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اظہار کی کئی اقسام ہیں مگر تحریریہ اظہار کو تھوڑا عرصہ ہی بیتا ہے۔یہ حالی کا مصرعہ تر ہے۔ انسان کی کتنی نسلیں اس چشم کشا نعمت سے آشنا ہوئے بغیر گزر گئیں۔ووکل ٹریکٹ کو کنٹرول کرنا دماغ کی قسمت میں بڑی دیر بعد آیا۔ خام مال کی فراہمی بنیادی پتھر ہے جس پر تحریر کی بنیاد کھڑی ہوتی ہے یہ تازہ مال اسے زبان مہیا کرتی ہے۔جیسے ڈاکٹر کو مریض کو صحتمند اور تن درست رکھنے کے لیے ادویات درکار ہوتی ہیں کہ محض نسخہ لکھنے سے مریض کی تندرستی محال ہے، ایسے ہی تخلیق کار کے لیے تخلیق کے وقت زبان کا نسخہ درکار ہے۔ اس نسخے کی عدم موجودگی میں ادیب تحریر کو وجود میں لانے کا فرض ادا نہیں کر سکتا۔اسے الفاظ کا ذخیرہ (اور ان کے استعمال کا طریقہ) درکار ہے۔ جو خام مال اسے درکار ہوتا ہے وہ بھی زبان کی مدد سے عقب میں موجود اشیا سے مستفید ہو کر اپنی تخلیقی عرصے کو باآسانی اپنے انجام کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے۔زبان کی تخلیق کے ابتدائی دور میں خط میخی کے ذریعے چند آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر مفہوم بیان کیا جاتا تھا۔ادیب اور بہت سارے فرائض کی بجاآوری کے وقت اپنے عہد کی زبان محفوظ کر رہا ہوتا ہے ایک عہد کی زبان میں روح ِ عصر جسم میں جان کی طرح مقیم ہوتی ہے۔ادھر جان نے قفس عنصری سے پرواز کی ادھر زبان کا جادو اڑا۔ زبان کی حفاظت ادب ہی کرتا ہے۔اس کی مثال ایک تخلیق اور ایک ڈاکٹر کے لکھے ہوئے تیر بہدف اور کامیاب نسخے میں مضمر فرق میں ہے۔ممکن ہے دونوں ایک ہی زبان میں لکھے گئے ہوں مگر نسخے کے لکھے ہوئے نسخے کی مدت مریض کی صحتیابی تک ہے اور ایک ادبی تحریر کا زمانہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔اس زمانے میں معاشرے کی روایات اس کا کلچر اس کی خواہشیں اور خواہشوں کی موت موجود ہوتی ہے اسی لیے زبان کو ام العلوم کہنا روا ہے۔یہی سارے علم پیدا کرتی ہے انہیںاپنی کوکھ کی گرمی اور ماں کی مامتا میسر کرتی ہے۔ علم کی پرداخت سے اس کی ترسیل تک سارے مراحل اسی کے ذمہ داری ہے۔زبان ایک Tangible وجود نہ رکھنے کے باوجود عام انسان کی زندگی گزارتی ہے وہ پیدا ہوتی ہے اور موت سے ہمکنار ہوتی ہے۔زبان باہمی مفاہمت تو پیدا کرتی ہی ہے یہ ایک سماجی ذخیرہ ہے۔اس ذخیرے کو ایک لغت کے طور پر محفوظ رکھنا اور ضرورت کے مطابق وہاں سے الفاظ اٹھا کر کوئی تحریر خلق کرنا ادیب کا بنیادی فرض ہے۔دوئم ،تخلیق کار اپنا پہلا قاری بھی ہوتا ہے اس مواد کے پڑھتے وقت اس کی وہ خاصیت جو Qualiaکو بڑھاتی ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ برین بذات خود مائنڈ کی تخلیق ہے برین شعور اور مائنڈ لاشعور کا خالق ہے۔مائنڈ ہمہ وقت کام کرتا ہے انسان کے جاگتے ہوئے شعور میں اور سوتے ہوئے لاشعور کام کرتا ہے۔اسی طرح مائنڈ جس طرح چاہتا ہے برین کو بڑھا اور کم کر سکتا ہے۔ تخلیقNot means but beء ہے مگر شعرا مصلح بھی تھے اور سماجی انصاف کے میدان میں سرگرم عمل بھی۔ معاشرے کی اصلاح بھی ادیب پر اس طرح ضروری ہے کہ ادب قاری میں معروض کو ایک الگ انداز سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ادب اسی لیے مقصود بالذات ہے کہ اس میں احکام نہیں صلاحیت اور درستی کی خوبی ہوتی ہے۔ ادب حاکمیت نہیں حکمت پر یقین رکھتا ہے۔ ادب حال کا وہ مورخ ہے اور مستقبل شناسی اور مستقبل گری کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ادب Qualia یعنی اہلیت، ہنر ،صداقت جوہر شعوری تجربہ شعوری استعداد کو مہمیز کرتا ہے۔دماغ ایک Regulator ہے اور ذہن زبان کی آماجگاہ۔تخلیق اسی زبان کی آماجگاہ سے فیض اٹھاتی ہے۔تخلیق زبان کو دوبارہ خلق کرتی ہے اور زبان کے جنم در جنم کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوتا ہے۔ یہ چند سطور ہم نے ایک ادبی مجلے کے اداریے کے لیے تحریر کی تھیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زبان کی زندگی کی حفاظت اسی طرح ممکن ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے ایک تحریر میں محفوظ کر لیا جائے۔یہ جو ہم آپ تحریر کرتے ہیں یہ اس زبان کی زندگی کو بڑھاوا دینا ہی ہے۔زبان کی اپنی ایک گرائمر ہے اور تخلیق کے اپنی گرائمر۔اصل بات یہ ہے کہ تخلیق اسی زبان کی دریوزہ گر ہے اور اسے تخلیق مکرر کرتی ہے۔