پاکستان کی سیاست دائرے میں سفر کر رہی ہے اور اب 80کی دہائی میں داخل ہو چکی ہے۔اتنی ترقی ضرور ہوئی ہے کہ چھانگا مانگا اور مری کی بجائے اب ممبران اسمبلی مختلف ہوٹلز میں ’’مقید‘‘ ہیں ان کی نگرانی اس حد تک کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی رکن سگریٹ پینے کے لئے بھی کھلی فضا میں نکلے تو خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ارکان کی بولیاں لگ رہی ہیں۔بولی کی رقم بڑھتے بڑھتے پچاس کروڑ تک پہنچ چکی ہے ایک ممبر کے بارے میں تو خبر ہے کہ وہ چالیس کروڑ میں اپنا سودا کر کے عازم ترکی ہو چکا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنی پارٹی سے بے وفائی کرنے والوں کے لئے جو سزا تجویز کی ہے اس کی وجہ سے ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی ضرور ہوئی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کا عزم پختہ ہے، اس لئے ایک نیا راستہ ڈھونڈ لیا گیا ہے کہ مخالف پارٹی کے امیدوار کو وقت انتخاب غائب کر دیا جائے۔اس طرح اس کی نشست کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا اور اس کے ووٹ سے بھی اس کی پارٹی محروم ہو جائے گی۔باقی رہے عوام تو وہ بے زبان ہے اور اس کی کس کو پرواہ ہے۔البتہ ایک مسئلہ بیچ میں آن پڑا ہے کہ بے زبان عوام کو اب بولنا آ گیا ہے اور نہ صرف بولنا آ گیا ہے بلکہ وہ لوٹا بننے والے ارکان کی پھینٹی لگانے کے لئے بھی لہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ترکی روانہ ہونے والے رکن اسمبلی کے اہل خانہ کو بھی کافی دقت اٹھانی پڑی ہے۔اس کو ووٹ دینے والے سینکڑوں لوگوں نے اس کے گھر کا گھیرائو کیا ہے اور اس کے گھر کے باہر لوٹوں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔لاہور کے لوگوں کو تو بات بے بات لبرٹی چوک میں اکٹھا ہونے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔لوٹے نے واردات لیاقت پور میں کی ہے اور لاہور کے ہزاروں لوگ بن بلائے لبرٹی مارکیٹ میں سراپا احتجاج ہیں۔ اس کے علاوہ 17جولائی کے ضمنی انتخابات میں پارٹی بدلنے والے لوٹوں کا جو حشر ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ہمارے ایک دوست فیصل حیات جیوانہ کی فتح کے بارے میں اس قدر یقین سے دعوے کر رہے تھے کہ فیس بک ان کے دعوئوں سے بھری ہوئی تھی لیکن ان کے مدمقابل اعظم چیلہ نے انہیں تیس ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دے کر ان انتخابات میں ایک ریکارڈ قائم کر دیا۔اس کے علاوہ تین دیگر اراکین نے 25ہزار سے زاید ووٹ سے اپنے مدمقابل کو شکست فاش دی ہے یہ نتیجہ حزب اختلاف کے لئے بھی ناقابل یقین تھا اور حکومت کے لئے بھی۔بہرحال عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اب وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو براداشت نہیں کریں گے۔عوام اب اپنے ووٹ کی اہمیت کو پہچان چکے ہیں اور بریانی اور قیمے والے نان کے بدلے ووٹ کا سودا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔یقینا یہ ایک نئی اور مثبت روایت قائم ہوئی ہے۔ابتدا میں تو حکومتی زعماء نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب حکومت جانے کا خیال آیا تو طرح طرح کی تاویلیں پیش کی جانے لگیں۔جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں مفاہمت کے نئے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔اس کالم کے چھپنے تک غالباً حتمی نتیجہ سامنے آ جائے گا۔تاہم ن لیگ کے لیڈر بھی اپنی شکست کے اسباب میں بے وفا لوگوں کو ٹکٹ دینے کو اپنی بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ہارنے والے بھی حیران ہیں کہ جن کے لئے بے وفائی کی وہی انہیں طعنے دے رہے ہیں۔مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے۔ سیاست سے قطع نظر پاکستان کی معیشت جس تباہی سے دوچار ہے وہ سارے محب وطن پاکستانیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔حکومت کا یہ حال ہے کہ نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ہر چیز کہیں کہ حکومت ہے لیکن نہیں ہے۔ڈالر کی پرواز جاری ہے۔بلا ناغہ ہر روز ڈالر کی قیمت پانچ چھ روپے بڑھ رہی ہے اور حکومت کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی۔چند روز تو حکومت کا کوئی ردعمل ہی سامنے نہیں آیا۔معیشت دانوں کے شور مچانے پر اب طرح طرح کی تاویلیں سامنے آ رہی ہیں۔وزیر خزانہ کا خیال ہے کہ حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ وہ مدت پوری کرے گی۔روپے کی قیمت میں استحکام آ رہاہے۔یہ الگ بات ہے کہ یہ استحکام صرف وزیر خزانہ کو نظر آ رہا ہے ورنہ معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔مدت پوری کرنے کا فیصلہ جس میٹنگ میں لیا گیا اس کی تصاویر نے قوم کو مزید پریشان کر دیا ہے۔متحدہ حکومت کے سارے رہنما فرحان و شادمان نظر آ رہے ہیں اور قہقہے او مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ انہیں ملک کی معیشت سے کوئی سروکار نہیں ہے اور ان کا واحد مقصد مدت پوری کرنا ہے۔اس تصویر نے ثابت کر دیا ہے کہ واقعی ایک تصویر ہزاروں الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ان نازک حالات میں سٹیٹ بنک ایک کل وقت گورنر سے بھی محروم ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حکومت معیشت کو کیا اہمیت دے رہی ہے۔اس سے پہلے وزیر اعظم ان معاشی حالات میں گریڈ 17سے 22 تک کے حکومتی ملازمین کے لئے Executive Allowanceکا اعلان بھی کر چکے ہیں۔بہت سے لوگوں کے لئے یہ ایک حیران کن فیصلہ تھا۔یہ بھی ناقابل یقین تھا کہ یہ الائونس چند سو روپے نہیں بلکہ بنیادی تنخواہ کا ڈیڑھ گنا ہے۔شاید حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے اور اب خواجہ آصف اعلان کر رہے ہیں کہ یہ الائونس نہیں دیا جائے گا۔لوگ تذبذب میں ہیں کہ وزیر اعظم کی بات کا یقین کریں یا خواجہ آصف کی بات سنیں یہ بات یقینی ہے کہ فی الحال تخت پنجاب ہی حکومت کی اولین ترجیح ہے نہ کہ ملک کی معیشت۔ پنجاب کی حکومت کسی کے پاس بھی جائے ملک میں بے یقینی کی سیاست ختم ہوتے نظر نہیں آتی۔اگر موجودہ حکومت برقرار رہتی ہے تو عمران خاں سری لنکا جیسے حالات بنانے کا سوچ رہے ہیں اور باقاعدہ اعلان کر رہے ہیں۔اگر پرویز الٰہی کامیاب ہوتے ہیں تو مرکزی حکومت صرف اسلام آباد تک محدود ہو جائے گی اور ان کا کام صرف ٹیکس لگانے‘ پٹرول کی قیمت بڑھانے‘ مہنگائی کے لئے جوابدہ ہونے اور مشکل سفارتی فیصلے کرنے تک رہ جائے گا۔کیا یہ ان کے لئے قابل قبول ہو گا۔اس کے علاوہ اگر پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال دے دی تو اسلام آباد تک پہنچنا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔باد النظر میں نئے اور غیر جانبدار انتخابات کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا۔ ضمنی انتخابات کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ انتخابات بڑی حد تک غیر جانبدارانہ تھے۔اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا۔مقامی طور پر بے ضابطگیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی بے پناہ مقبولیت نے ان بے ضابطگیوں کا اثر زائل کر دیا ہے۔چند حکومتی وزراء کی چیخ و پکار سے بھی اندازہ ہوتا ہے اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہی ہے جس سے ان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی معیشت کو اولین ترجیح دی جائے اور تمام فریق مل بیٹھ کر اس کا کوئی قابل عمل حل نکالیں۔آزادانہ انتخابات سے ہی ایک بہتر حکومت وجود میں آ سکتی ہے جو مشکل فیصلے لے سکے۔