حکومت کے تازہ ترین فیصلوں میں میاں نواز شریف کو وطن واپس لانا شامل ہے۔ دو سالہ حکومتی کارکردگی میں اگر کوئی ایسا کام جس نے تحریک انصاف کے احتساب کے نعرے کو شدید نقصان پہنچایا تو وہ میاں نواز شریف کو علاج کی غرض سے ملک سے باہر بھیجنا تھا۔اسکے بارے میں جس طرح ماحول بنایا گیا اور میاں صاحب کی بیماری کو جان لیوا ثابت کیا گیا اس میں آج یہ الزام دینا کہ حکومت کے ساتھ دھوکہ ہو گیا سرا سر غلط ہے۔ آج کوئی صاحب میاں صاحب کے پلیٹلٹس کم کرنے کی ترکیب افشا کر رہا ہے تو کوئی انکی رپورٹس کی جعلی تیاری کے حوالے سے دعوے کر رہا ہے۔ اسی طرح سے حکومت اور ہمارا نظام عدل انکے باہر جانے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں بلکہ ایکدوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ جب میاں نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ نے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تو وزیر اعظم عمران خان بہت جز بز ہوئے کیونکہ بظاہر انکی مرضی کے خلاف میاں نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی لاہور ہائیکورٹ نے اجازت دی۔ہزارہ موٹروے کے افتتاح کے موقع پر انہوں دو کی بجائے ایک نظام عدل رائج کرنے کی بات کی اور اس کے لئے اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور انکے بعد بننے والے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد سے اپیل کی کہ وہ اس نظام کوطاقتور اور کمزور کے لئے یکساں بنانے میں مدد کریں اسکے لئے حکومت تمام وسائل مہیا کرنے کو تیار ہے۔ اسکے جواب میں چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے بہت متحمل انداز میں وزیر اعظم کی مدد کی جہاں تعریف کی وہیں انہوں نے وضاحت سے بتایا کہ کس طرح عدالتیں ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں، جس میںکسی امیر یا غریب، طاقتور اور کمزور کی تفریق نہیں کی جاتی۔ دونوں محترم شخصیات اپنی جگہ درست فرما رہی تھیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں غلطی تسلیم کرنے کا رواج نہیں ہے اور دوسرا ایکدوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔ وزیر اعظم کو عدالت پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنی کابینہ کے فیصلے کو دیکھنا چاہئیے تھا۔ جب وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم کے قائل کرنے پر میاں نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دیدی تھی تو عدالت اگر اس میں اندیمنٹی بانڈ کی کمی کر کے وفاقی کابینہ کے حکم کی تعمیل کا حکم دیتی ہے تو اس پر واویلا تو نہیں کرنا چاہئیے۔ اس وقت ’’دو نظام عدل ‘‘کے عنوان سے کالم میں تحریر کیا تھا؛ ’’مسئلہ یہ ہے کہ عدلیہ ہو انتظامیہ ، مقننہ یا پھر اسٹیبلشمنٹ، ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سب کی الماریوں میںماضی کے مردے پڑے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں جس میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک نئے دور کا عزم لئے ہوئے ہیں ، کسی ایک کیس کی بنیاد پر اس عمل کو الجھانا مناسب نہیں ہے۔ پہلے بھی حکومتوں اور اداروں کے درمیان ایسی معمولی باتوں سے بحث شروع ہوئی اور بہت خطرناک انجام تک پہنچی۔‘‘ اب حکومت کایہ عزم کے وہ میاں نواز شریف کو واپس لانے کے اقدامات میں تیزی لا رہے ہیں ایک ایسا خیالی پلائو ہے جو کبھی نہیں پکے گا۔میاں نواز شریف کو اگر واپس لانے کی سکت ہوتی تو وہ پاکستان سے جا ہی نہیں سکتے تھے۔اپنے قد اور طاقت سے بڑھکر مکہ مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس وقت اگر حکومت اس قسم کا کوئی قدم اٹھانے کی بات کر رہی ہے تو خالصتاً سیاسی بیان بازی ہے۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ میاں نواز شریف کی گزشتہ کچھ دنوں میں مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو سے رابطوں اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس قسم کا تاثر دینا کہ نواز شریف نے مریم کو ٹاسک دیدیا ہے اور اب وہ پارٹی کو لیڈ کرینگے۔پھر یہ بھی کہ مریم کو مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ بھر پور تعاون کا کہا جا رہا ہے۔ ان باتوں نے حکومتی حلقوں میں تھوڑی بے چینی پیدا کی ہے کہ کہیں یہ معاملات اسی طرح رپورٹ ہوتے رہے تو اپوزیشن کسی سنجیدہ سیاسی تحریک کے بارے میں کام شروع نہ کر دے، جس کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی ابھی اس قسم کے موڈ میں نہیں ہے۔بہرحال حکومت بر وقت اسکا تدارک کرنے کے چکر میں اس قسم کے فیصلوں کا اعلان کر رہی ہے کہ میاں نواز شریف کو واپس لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اوراس مشن پر کام تیز کر دیا گیا ہے۔وزیر اعظم نے اس مقصد کے لئے اپنے ترجمانوں کا خصوصی اجلاس طلب کیا اور اس میں طویل غورو خوض کے بعد یہ خیالی پلائو پکانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کسی اور کو پتہ ہو نہ ہو وزیر اعظم عمران خان اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میاں نواز شریف کو کن شرائط پر باہر بھیجا گیا ہے اور اگر وہ انکی پابندی نہیں کرینگے تو اسکے نتائج میاں صاحب اور مریم کے لئے کیا نکل سکتے ہیں۔ اس بارے میں مریم بھی اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں اشارہ دے چکی ہیں کہ یوں لگتا ہے مجھے یہاں یرغمال کے طور پر رکھا گیا ہے۔ مریم کی نیب پیشی کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور میاں نواز شریف کا پاکستان میں بلاول اور مولانا فضل الرحمٰن سے رابطہ کسی سیاسی چال کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسکی واحد وجہ میاں شہباز شریف کی’’ سیاسی بصیرت‘‘ ہے جس سے نواز شریف اور مریم کو یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنے معاملات سیدھے کر رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت انکے ہاتھ سے نکل کر شہباز شریف کے خاندان میں چلی جائے گی جس کے بعد انکی سیاسی جدو جہد اور بیانیہ سب خاک ہو کر رہ جائیگا۔اس وقت دونوں باپ بیٹی ان لوگوں تک پیغام پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں جنہوں نے میاں نواز شریف کو جیل سے نکال کر باہر بھجوایا اور مریم کو بھی جاتی امراء کے ایکڑوں میں پھیلی سلطنت میں سکون سے رہنے کا موقع دیا کہ اگر شہباز شریف کے ساتھ ڈیل کی تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔یہ شریف خاندان کے گھر کی لڑائی ہے اس میں وزیر اعظم اور انکی جماعت کو گھسنے کی ضرورت نہیں ہے۔حکومت کوئی بھی منصوبہ بنا لے لیکن نواز شریف کو واپس لانا انکے بس میں نہیں ہے اور نہ خود میاں صاحب واپس آنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ابھی تک پاکستان میں ایسا کوئی سیاسی ماحول نہیں ہے جس میں وہ آ کر کوئی موئثر کردار ادا کر سکیں۔ حکومت کے لئے میاں نواز شریف کو واپس لانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ مہنگائی ،بیروزگاری، صحت، تعلیم کے معاملات پر توجہ دے اور بقول عمران خان، غریب طبقے کو اوپر اٹھائے۔شریف خاندان کے تنازعے میں پارٹی بننے کا نہ سوچے۔