زمزمہ کو 1761ء میں پانی پت کی جنگ میں استعمال کیا گیا۔اس توپ کے متعلق بہت سی کہانیاں مشہور تھیں کہ جس کے پاس یہ ہو وہ لڑائی جیت جاتا ہے۔انگریز سے پہلے یہ توپ بھنگی مثل کے پاس رہی اس وجہ سے اسے بھنگیوں کی توپ بھی کہتے ہیں۔1870ء کے عشرے میں مال روڈ پر عجائب گھر کی بغل میں میو سکول آف انڈسٹریل آرٹ قائم کیا گیا۔جہاں آرٹ سکول تعمیر ہوا یہاں مغل اور سکھ عہد مین ایک باغ تھا۔یہ سکول آج این سی اے کے نام سے مشہور ہے۔1877ء میں گورنمنٹ کالج کی موجودہ عمارت مکمل ہوئی اور وہاں کلاسیں شروع ہو گئیں۔ ایچ آر گولڈنگ کی کتاب ’’اولڈ لاہور‘‘ 1924ء میں شائع ہوئی۔وہ لکھتا ہے کہ 1875ء میں میاں میر چھائونی کی طرف سے آتے ہوئے جب نہر کا پل پار کیا جاتا تو سڑک کے دونوں جانب دور تک بنجر زمین پڑی تھی۔صرف بائیں طرف کچھ دو منزلہ بنگلے تھے جن کے مالک مہاراجہ پٹیالہ تھے۔مہاراجہ سے پہلے ان بنگلوں میں اینگلی کن بشپ آف لاہور کا قیام رہا۔گورنمنٹ ہائوس کو عبور کرتے ہی ضروریات زندگی کی خریداری کے لئے دکانیں بن گئیں۔یہاں مارکیٹ اور کشمیر روڈ کے درمیان ایک خالی پلاٹ تھا جو برنی گارڈن کہلایا۔ اس سے آگے بیرک نما ایک چھپی ہوئی عمارت تھی۔یہ اولڈ پنجاب کلب تھی۔یہاں ریکٹ کورٹ موجود تھی۔اسی وجہ سے ایجرٹن روڈ پہلے ریکٹ روڈ کہلاتی تھی۔ مال کے کنارے چیئرنگ کراس سے لے کر ہال روڈ تک پریمئر فوٹو گرافک سٹوڈیو کے سوا کوئی عمارت نہیں تھی۔ آج کل جہاں ڈائریکٹر انڈسٹری کا دفتر ہے یہ عمارت پہلے فورڈ موٹر کمپنی کی ملکیت ہوا کرتی تھی۔کچھ مدت تک یہ جگہ پنجاب حکومت کے ملٹری سیکرٹری کا دفتر رہی تاہم اس کا سامنے والا حصہ مال روڈ پر نہیں تھا۔لاہور کے ایک پوسٹ ماسٹر مسٹر جارج نے یہاں اپنی رہائش گاہ بنائی۔اسی جگہ ہوٹل سنی ویو بنا۔گولڈنگ کے بقول ہال روڈ اور لارنس روڈ کے اتصالیمقام پر ایک عمارت کیرج شاپ کی تھی۔جبکہ ایکسچینج کے نام سے مشہور دو بنگلے بائیں طرف تھے۔سرگنگا رام نے جب یہاں کسی کاروبار کے لئے تعمیرات کیں تو پہلی عمارات گرا دی گئیں۔دوسری عمارت بمبئے سائیکل اینڈ موٹر ایجنسی کی تھی۔ سر لارنس کے مجسمے کے پاس پنجابی فن تعمیر والی ایک قدیم عمارت تھی جہاں ایک سابق برطانوی فوجی افسر مقیم تھا۔ مال روڈ کے نواح میں کئی علاقوں کے نام آج بدل چکے ہیں‘ انارکلی کے سول سٹیشناور گورنمنٹ ہائوس کے درمیان علاقے کو لیفٹیننٹ گورنر سرڈونلڈ میکلوڈ کے نام سے ڈونلڈ ٹائون کہا جاتا تھا۔اسی گورنر کے نام پر میکلوڈ روڈ ہے ۔ریلوے سٹیشن والا علاقہ نولکھا کہلاتا۔ مال روڈ کی اہمیت بڑھانے میں ٹائون ہال‘ گورنمنٹ کالج‘ ایچسی سن کالج‘ چیف کورٹ (لاہور ہائیکورٹ )اور جی پی او کی عمارات نے اہم کردار ادا کیا۔پہلے اپر مال اور لوئر مال ایک دوسرے سے ملی ہوئی نہیں تھیں۔ مال روڈ پر فوجی‘ کاروباری اور تفریحی مقاصد سے کئی عمارات تعمیر کی گئیں۔ بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو مال روڈ پر عمارات کی تعمیر کا عمل تیز ہو گیا۔1914ء کے نقشے سے یہ تعمیرات دیکھی جا سکتی ہیں۔فصیل سے باہر لاہور شہر پھیلنے لگا۔آبادی کا رخ انارکلی بازار کے اطراف تھا۔سرکاری افسران کی رہائش گاہیں بنیں، جنرل پوسٹ آفس کی عمارت 1904ء میں تعمیر ہوئی۔پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کا یونیورسٹی ہال 1905ء میں تعمیر ہوا۔یونیورسٹی کی لائبریری 1911ء میں تعمیر ہوئی۔1914ء کے نقشے پر چیئرنگ کراس بھی ابھر آیا۔چوک چیئرنگ کراس لندن کے چیئرنگ کراس سے متاثر ہو کر بنایا گیا۔ چیئرنگ کراس کو موجودہ شکل تک آتے آتے ایک صدی سے زائد کا عرصہ لگا ہے۔اسمبلی کے سامنے جہاں ایک چبوترے پر قرآن پاک دھرا ہے یہاں ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ ہوا کرتا تھا۔یہ تکونی جگہ فیروز پور روڈ‘ ایجرٹن روڈ اور مونٹگمری روڈ کو آپس میں ملاتی ہے۔1914ء میں اس چوک کے ایک کونے پر شاہ دین بلڈنگ بنی۔یہ عمارت آج بھی جدید لاہور اور مال روڈ کی خوبصورتی بڑھاتی ہے۔1917ء میں جادوگھر کی عمارت بنی، یہاں وزیر اعلیٰ کا سٹاف بیٹھتا ہے ۔1915ء میں چیئرنگ کراس چوک کو بہتر بنایا گیا۔درمیان والے تکونی حصے کو نیم دائرے کی شکل دی گئی۔ 1981ء میں چیئرنگ کراس کو ایک بار پھر بہتر کیا گیا اور اس کا نام فیصل چوک رکھ دیا گیا۔ مال روڈ کی رونق چائینز لنچ ہوم اور پاک ٹی ہاوس نے بڑھائی ۔آزادی کے بعد یہ دونوں جگہیں ادیبوں ،شاعروں اورفنکاروں کی بٹھک بن گئیں۔ انگریز عہد میں ایک متمول ہندو ٹھیکیدار میلہ رام کی اس علاقے میں وسیع اراضی تھی۔چڑیا گھر ‘ فلیٹیز ہوٹل‘ آواری ہوٹل‘ واپڈا ہائوس اور اس کے عقب میں ٹیلی فون ایکسچینج میلہ رام کی زمین پر ہی بنائے گئے۔ 1914ء میں سرکاری ملازمین کی رہائش گاہ کے لئے جی او آر چیئرنگ کراس کے مشرق کے طرف بنانے کا فیصلہ ہوا۔192ایکڑ پر مشتمل اس علاقے کو گارڈن سٹی بنایا گیا۔ اس وقت کے گورنر سرچارلس ریواز تھے۔انہی کے نام پر ریواز گارڈن سکیم ہے۔آرٹ سکول کے سامنے مال روڈ کو اس دور میں وسیع کیا گیا۔ مال روڈ لاہور پر نوآبادیاتی عہد کے اثرات کا نمونہ ہے۔ جس جگہ گورنر ہائوس ہے یہاں شاہ جہان کے دور میں ایک بزرگ سید بدرالدین گیلانی کا مقبرہ بنایا گیا۔ان کا سن وفات 1072ہجری لکھا گیا ہے۔بیرون شہر آبادیاں سکھ غارت گروں نے برباد کر دیں تو اس ویران جگہ پر پہلوانوں نے اکھاڑا بنا لیا۔مقبرے کے گنبد کو اسی لئے کُشتیوالا گنبد کہتے ہیں‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے آخری دور میں جمعدار خوشحال سنگھ نے قبر کے گنبد کو گرا دیا اور اس کے گرد کوٹھی بنا لی۔یہ عمارت کشمیری اینٹ فروشوں سے بچ گئی۔ انگریز حکمران بنے تو سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر مسٹر بورنگ قیام پذیر ہوا‘ پھر کمشنر منٹگمری آئے۔انہوں نے تجویز دی کہ یہ کوٹھی سرکار اپنی ملکیت میں لے لے اور جمعدار خوشحال سنگھ کے وارث کو اس کی قیمت دیدے یا متبادل جائیداد دیدی جائے۔سید بدر الدین گیلانی کا مقبرہ عمارت کی نچلی منزل پر اب بھی موجود ہے۔