نئے موضوعات کی تلاش اور تراش ایک الگ سے مستقل مرحلہ ہے ، جس کے ساتھ ایک کالم نگار کو ہمہ وقت نبرد آزما رہنا پڑھتا ہے، ادارتی صفحہ کی ترجیح نیوز ، کرنٹ آفیئرز، سیاسیات اور اس سے متعلق تجزیے اور تبصرے ہیں، جبکہ میرا ذاتی اور منصبی دائرۂ فکرو عمل علمی اور دینی ہے ۔ بنابریں پھر پھیرا کر وہیں ، حلقہ بگوش ہوجاتا ہوں، اور انہی دائروں اور زاویوںسے نئے موضوعات بھی دستیاب کرنے کی سعی کرتا ہوں ، اس لیے کہ دین و فقر اور شریعت و طریقت اس خطّے کے لوگوں کے اجزائے ترکیبی میں شامل اور ’’ریلیجیئس ٹچ‘‘ ہماری سوسائٹی اور سیاست کی مستقل ضرورت ہے ۔ یوں دفتری دوڑ، دھوپ کے درمیان کالم بھی نکل آتا ہے ، وگرنہ تو میرے احباب کا یہ سوال ا پنی جگہ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے کہ آپ اپنا کالم لکھنے کے لیے وقت کب نکالتے ہیں ؟--- تو یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ان دفتری جھمیلوں میں بھی اس قدر مستعد رکھا اور وقت میں یہ بر کت ارزاں فرمائی ہو ئی ہے بصورتِ دیگر ؛ ہر کہ دَر کانِ نمک رفت، نمک شُد کہ کانِ نمک میں جو بھی جاتا ہے ، نمک ہی ہوجاتا ہے۔ دو دن قبل، یعنی منگل کو،قادری سلسلے کی عظیم المرتبت ہستی حضرت میاں میرؒ کے مزار کی 399 ویں تقریب غسل تھی ، حضرت میاں میرؒ برصغیر میں بین المذاہب مکالمہ کے اتنے زبردست داعی تھے کہ جب ایک ساز ش کے ذریعے گورو ارجن دیو کو شہنشاہ جہانگیر کے عتاب کا نشانہ بنایا گیا تو سکھ مذہب اور ان کی مذہبی لیڈرشپ کو کٹھن اور مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا، اس صورتحال میں حضرت میاں میرؒ میدانِ عمل میںآئے اور علی الاعلان ان کی مدد کی ، انہوں نے’’ مسلم سکھ بھائی چارے‘‘ کی جو بنیاد رکھی ، اس کے رہینِ منّت آج بھی سکھ بڑی نیاز مندی کے ساتھ، آپؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں ، خیال تھا کہ اسی پر کچھ مزید لکھوں گا ،کہ آج کل بین المذاہب مکالمہ اور بین المسالک ہم آہنگی سے بات آگے بڑھتے ہوئے ، مسالک کے اندر گروہی اور طبقاتی تقسیم نے مختلف چیلنجز پیدا کردیئے ہیں، ایسے میں صوفیاء کے اندازِ فکر و عمل کی ترویج و تشہیر کی ازحد ضرورت ہے ۔مگر پھر یوں ہوا کہ: لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے ماہِ ربیع الاوّل کی آمد کے سلسلے میں سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابلاغ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج کے لیے صوبائی وزیر پارلیمانی امور راجہ بشارت کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ،جس میں چیف سیکرٹری پنجاب ، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز،ایڈیشنل آئی جی آپریشنز، محکمہ اوقاف ، آئی اینڈ سی ، لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ، ہائرایجوکیشن، سکول ایجوکیشن ، فنانس کے سیکرٹریز اور وزراء و پارلیمنٹریرین پر مشتمل ہے ۔ جس کا مقصد اس ماہِ مقدس میں حکومتی اور ریاستی سطح پر عظیم الشان اور فقید المثال تقریبات کا اہتمام و انصرام ہے ۔ کمیٹی کا دائرہ کار حسبِ ذیل متعین ہوا۔ الف :یکم تا 12ربیع الاوّل کے دوران مختلف تقریبات اور ایونٹس کی ترتیب وتشکیل ، بطور خاص سیر ت کانفرنسز کا اہتمام اور ضلعی اور ڈویژنل سطح پر "حُسنِ قرأت ونعت "کے مقابلوں کا انعقاد ،جس میں قومی اور بین الاقوامی شہرت کے حامل قرأ ،نعت خوان اور سکالرز شریک ہوں ۔ ب:"شانِ رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"کی تقریبات کے انتظامات کے لیے جامع لائحہ عمل کی تشکیل ۔ ج:ایونٹس اور تقریبات کے انعقاد واہتمام کی مانیٹرنگ ۔ د:یونیورسٹیز میں "سیرت چیئر"کے قیام کے لیے تجاویز کی حتمی تشکیل ۔ ذ:لاہور میںقومی اور بین الاقوامی سکالرز پر مشتمل" مشائخ وعلماء کانفرنس" کاشاندار اہتمام وانعقاد ، جس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے باہمی ربط وتعاون کا التزام ہو ۔ ر:صوبائی وزارائ، ایڈوائزرز ،اور معاونینِ خصوصی برائے وزیر اعلیٰ ،جن کو پرائس مانیٹرنگ اور دیگر اُمور کے سلسلے میں ،مختلف اضلاع تفویض شدہ ہیں، اپنے اُسی متعلقہ ضلع میں، مقامی منتخب نمائندگان اور سول سوسائٹی کی تنظیمات کے تعاون سے "شانِ رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "تقریبات کے شایانِ شان اہتمام وانعقاد کو یقینی بنائیں۔ گزشتہ دو سالوں سے یہ اہتمام انتہائی تزک و احتشام سے جاری ہے ، جس میں تقریباتی کے ساتھ تعلیماتی اور تفہیماتی پہلو بھی نمایاں اور معتبر ہیں، پنجاب بھر کی مختلف یونیورسٹیز اور اداروں میں قائم سیرت چیئرز کو باہم ِ مربوط کیا جارہا ہے ، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز، جو کہ چوہدری پرویز الٰہی کے دل کے بہت قریب اور ان کی امنگوں اور دینی جذبوں کا ترجمان ہے ، کو نہ صر ف فعال ، بلکہ اس کی فعالیت کو یقینی بنانے کے لیے چوہدری صاحب اپنی اُس نشست گاہ کو بھی مستعد کرنے کے خواہاں ہیں ،جہاں، انہوں نے اپنی گزشتہ وزارتِ اعلیٰ کے دور کے آخری رو ز، بلکہ آخری ساعتوں میں (مورخہ 18 نومبر2007ئ) جلوہ أ را ہو کر آغاز و افتتاح فرمایا تھا ، اس پراجیکٹ میں ، ان کے دستِ راست حافظ عمار یاسر ، چوہدری راسخ الٰہی اور قاری محمد حنیف جالندھری،ہمیشہ کی طرح، ان کے ہمنوا و ہمرکاب ہیں ، تو قع ہے کہ گزشتہ برسوں کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوگا۔اور یہ مرکز" سینٹر آف ایکسیلینس" کے طور پر آگے بڑھے گا۔ یہ عمارت جو ابتدائی طور پر قرآن کمپلیکس--- اور پھر سیرت اکیڈمی سے موسوم ہوئی اور وہ اس طرح کہ جب چوہدری صاحب کی دعوت پر 2007ء میں امام ِ کعبہ الشیخ عبد الرحمن اَ لسّدیس لاہور کے تاریخ ساز دورے پہ تشریف فرما ہوئے تو، ایوانِ وزیر اعلیٰ ،7 کلب روڈ، لاہور میں تمام مسالک اور مکاتب کے عمائدین اور اعیانِ سلطنت سے خطاب کے دوران امام صاحب نے تلقین فرمائی تھی کہ محض قرآن نہیں بلکہ سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس ادارے کے بنیادی چارٹر میں شامل کیا جائے ، چنانچہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز ، انہی جذبوں کا ترجمان ہے ۔ الامام السدیس کا یہ دورہ ---خطّے میں اتحادِ اُمّت کا پیش خیمہ ثابت ہوا تھا ، اس سے پہلے ان محترم مہمانوں کے ایسے دورے مخصوص طبقے تک محدود رہتے تھے ، اس موقع پر یہ حصار ختم ہوا اور بادشاہی مسجد کے ساتھ ، جامعہ اشرفیہ میں بھی امامِ کعبہ کی اقتدأ میں نمازِ فجر ادا ہوئی ، کم و بیش ایک کلومیٹر کے رداس "Radius" میں عامۃُ المسلمین کا ٹھاٹھیں مارتا ہجوم تھا ، چوہدری صاحب تو امام صاحب کو داتاؒ دربار بھی لے جانے کے خواہاں تھے ، لیکن ان کی مصروفیت حائل ہو ئیں، وگرنہ یہ بُعد بھی ختم ہوجاتا، اور یہ قرب ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد دیتا۔حکومت کا یہ عمل بھی مستحسن اور لائق شتائش ہے ، جس میں باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعہ ہدایت کردی گئی ہے کہ نبی اکرم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمِ مبارک کے ساتھ ، خاتم النبیین بھی لکھا جائے اوراسم مبارک کے ساتھ، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے اہتمام سے تحریر ہو۔