وہ بتا رہی تھیں کہ وہ ایک ماہر نفسیات ہیں۔ انہوں نے کوئی پانچ ہزار کتوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ہم انسانوں کا رویہ کتوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا۔ ہم کیوں انہیں پتھر مارتے ہیں۔ ہم پتھر مارتے ہیں تو وہ ہمیں کاٹتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں خوا ہمخواہ ہم انسانوں سے راہ چلتے الجھتے ہیں۔ ہمیں بھی تو اپنے دفاع کا حق ہے۔ ان کا جواب تھا وہ بے زبان ہیں‘ نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ ان کی یہ سائیکالوجی پیدا ہوتی ہے کہ وہ انسانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کی نفسیات درست کرنے کا طریقہ تو وہ نہیں جانتیں تاہم انسانوں کی ذہنیت بدلنے کاآرٹ ان کو آتا ہے۔ شاید انہوں نے اپنے لئے سائیکاٹرسٹ اورسائیکالوجسٹ دونوں کے الفاظ استعمال کئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ سائیکوپتھالوجسٹ یا کوئی اور لفظ بھی برتا ہو۔ اچھی بات ہے کہ ہم اتنے ہمدرد و مہربان ہو گئے ہیں کہ انسانوں ہی کا نہیں کتوں کا بھی خیال کرنے لگے ہیں۔ آج کل ہمارے ہاں اچانک یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔ یہ بھی اطلاع آنے لگی ہے کہ کتوں کے کاٹنے پر ویکسین دستیاب نہ تھی یا دی نہ جا سکی۔ اس میں ان ہسپتالوں یا ہیلتھ مینجمنٹ کے اداروں کا ذکر آیا جن کا کام یہ ویکسین یا تریاق کا بندوبست کرنا تھا۔ کسی نے بتایا یہ فلاں ممالک سے آتی ہیں‘ بھارت کا بھی ذکر تھا۔ کچھ ایسے دکھ کے ساتھ کہ ہم نے بھارت سے اپنے تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔ کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ مختلف ویکسین بنانے کا ایک سٹیٹ آف ادارہ ہم نے اسلام آباد میں قائم کیا تھا۔ کیا وہ کام نہیں کر رہا۔ نہیں کر رہا تو کیوں نہیں کر رہا۔ یہ آخر کیوں ہوتا ہے کہ ہم ادارے بنا بھی لیتے ہیں تو اپنی نالائقی کی وجہ سے اسے چلا نہیں پاتے۔ ہاں اتنا ذکر ضرور آیا کہ یہ وفاق اور صوبے کی لڑائی بن کر رہ گئی ہے۔ ویکسین بنانے کا یہ ادارہ وفاقی ہے اور ویکسین کا بندوبست رکھنے والے ہسپتال عام طور پر صوبائی ہیں۔ خیر یہ بحث تو گویا پرانی ہو گئی۔ اب تو ہم کتوں کے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں۔ وہ دن گئے جب بائولے کتوں سے بچنے کا یہ علاج بتایا جاتا تھا کہ کتا مار مہم شروع کی جائے۔ اب انسانوں نے طے کیا کہ کتوں کے ساتھ یہ سلوک کرنا غیر انسانی ہے۔ طے ہوا اب کتا مار مہم شروع نہیں کی جائے گی بلکہ بہت جدید طریقے سے انہیں خوبصورت جال میں پکڑ کر انہیں ویکسین دی جائے گی جو ان کے اندر بائولا پن پیدا نہیں ہونے دے گی۔ آخر ہماری ’’مہذب‘‘ دنیا میں کتوں کی پذیرائی تو ہوئی ہے نا۔ ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ انہیں کھانا بھی ایسا ویسا نہیں دیا جاتا۔ قبلہ ایسا کھانا مہیا کیا جاتا ہے جو انسانوں کو بھی میسر نہیں ہے۔ یہی تو انسان دوستی ہے۔ یہ تو پرانی بات ہو گئی جب یہ کہا جاتا تھا کتے بندھے ہوتے ہیں اور پتھر آزاد ہیں۔ اب پتھر آزاد نہیں چھوڑے جا سکتے۔ کتوں کی نفسیات بگڑ جائے گی اور نفسیات دانوں کو بہت مشکلات ہوں گی۔ ہم اتنے انسان دوست ہو گئے ہیں کہ اب ہم کتوں سے بھی محبت کرنے لگے ہیں۔ اس نفسیات کے بھی تجزیے کی ضرورت ہے جہاں انسانوں کو دو وقت کی روٹی نہ ملتی ہو۔ جہاں ان کی زندگیاں اجیرن ہوں۔ جہاں ان کے علاج معالجے کا کوئی بندوبست نہ ہو۔وہاں ہم انسانیت کے نام پر کتوں کے تحفظ کے لئے نکلے ہوئے ہیں۔ کسی نے ایک گفتگو میں کہا یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ انسانیت کی خدمت میں اتنے آگے آ چکے ہیں کہ اب وہ حیوانوں سے محبت کے تقاضے پورے کرنے پر تل گئے ہیں۔ میں انہیں حیوان کہہ رہا ہوں۔ درندے نہیں۔ یہ نیم وحشی جانور ہمیں اتنے عزیز ہیں کہ ہم ان کی محبت میں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی بھی پروا نہیں کرتے۔ کوئی ہے جو اس انسانی نفسیات کا جائزہ لے کر تجزیہ کرے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں کیسی تہذیب پیدا ہو رہی ہے۔ جب کوئی ایک طرح کے واقعات ہوتے ہیں اور ہمارا میڈیا انہیں اچھالتا ہے تو میں اکثر سوچتا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ پھر اس میں ایک خاص قسم کا طبقہ ایک خاص انداز میں برسر عمل ہونے والا ہے۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات ہونے لگیں گے تو قطار لگ جائے گی۔ پھر اس کے پیچھے شعور آگاہی پیدا کرنے کا ایک خاصا فلسفہ چلے گا۔ وہ سب کچھ ایک خاص تہذیب اور کلچر کی پیداوار ہوتا ہے ۔ جنسی تعلیم و تربیت کا چرچا شروع ہو جائے گا۔ کہا جائے گا بچوں کو آگاہی دی جائے۔ اس آگاہی کے نام پر ایک پورا ٹولہ ٹولہ سرگرم ہو گا اور ایک خاص پس منظر کے ساتھ۔ اب جب کتوں کے کاٹنے کا معاملہ آیا تو میں سوچ رہا تھا کہ وہ قومی ادارے جو اربوں روپے کا بجٹ ضائع کرتے ہیں اور کام نہیں کرتے۔ ان کی شامت آ جائے گی۔ مگر ہوا کچھ اور ؟ دیکھتے ہی دیکھتے جانور وںاس سے محبت کے نام پر کئی جانور دوست بلکہ انسان دوست تنظیمیں اپنے اپنے فلسفے کے ساتھ میدان میں آ گئیں۔ یوں لگتا ہے انسانوں کو جانوروں سے بچانا مقصود نہیں بلکہ جانوروں کو انسانوں کے ظلم و ستم سے بچانا مطلوب ہے۔ اس سارے عمل کو اس طرح رومانٹائز کر دیا جاتا ہے جیسے ہم سے پہلی والی نسل نے انقلاب کو کیا تھا۔ ہم ان انسانوں کی خاندانی منصوبہ بندی تو کر نہیں پا رہے جن سے گلی گلی اور قریہ قریہ آوارہ بے کار کتوں کی طرح معاشرہ دوچار ہے۔ ہمیں ان کی زندگیاں عزیز ہیں نہ ان کے ماں باپ کی۔ البتہ ہم نے ان کتوں کی افزائش نسل پر قابو پانے کا فیصلہ کیا ہے جو انسانوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ ہم بھی کیا سگ صفت لوگ ہیں۔ سب باتیں ایک طرف‘ مگر ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہماری یہ انسان دوستی ہے کیا۔ بظاہر یہ ایک فیشن بن جاتا ہے۔ ہمیں اس فیشن کی نفسیات کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے اور اس رجحان کا بھی جائزہ لینا چاہیے‘ جو انسانی نفسیات میں جنم لے رہا ہے۔ ہم انسانوں کو بھی مختلف مسئلوں کا سامنا ہے۔ کبھی ہم کسی جاندار کی نسل بچانا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا سے ناپید ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس جذبے کے تحت ہے کہ مستقبل کے عجائب گھر میں یہ چڑیا گھر محفوظ رہ سکے اور کبھی صرف اس لئے کہ ہم آنے والے مورخ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسان بہت حیوان دوست ہے وہ زندگی کا احترام کرتا ہے۔ اگر اس کی اپنی نسل کو بھی کسی سے خطرہ ہو تو بھی وہ یہ خطرہ مول لے گا جانوروں سے ہمدردی بہت اچھی بات ہے مگر جس فیشن کی نفسیات سے اس تصور کو پالاجا رہا ہے‘ وہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ ہمیں اپنا دشمن خود سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ یہ اچھا جذبہ ہے۔ مگر دشمنی کی حیوانیت اور درندگی سے پیار کرنا۔ خود ایک ایسا مطالعہ ہے جسے انسانیت کی بقا کے لئے اہتمام کے ساتھ روا رکھا جانا چاہیے۔ انسان میں انسانیت کا جذبہ حیوان دوستی نہیں ہو سکتا۔ حیوانیت سے محبت اور چیز ہے اور حیوانوں سے انسانیت کے نام پر محبت دوسری بات ہے۔ اس نکتے پر غور ضرورکیجیے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ انسانی تہذیب حیوانیت کی راہ اختیار کرے۔