کورونا نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعلیمی نظام کو متاثر کیا۔ پاکستان میں کئی ماہ تک تعلیمی ادارے بند رہے اور بچوں کو سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر اگلی جماعتوں میں بھیج دیا گیا‘یہ کورونا کی مہربانی ہے کہ پورا سال طلبہ نے کلاسیں لیں نہ نصاب مکمل کیا گیا مگر میٹرک کے نتائج‘سامنے آئے تو ملک بھر میں سینکڑوں طلبہ کے نمبر گیارہ سو میں سے گیارہ سو تھے‘حتیٰ کہ آرٹس ‘(اردو‘ تاریخ ‘مطالعہ پاکستان اور اسلامیات )کے مضامین میں بھی پورے نمبر۔یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا اور آئندہ شائد عشروں نہیں صدیوں تک لوگ ان نتائج کو یاد رکھیں‘اب لاہور انتظامیہ نے سموگ کے باعث سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ہفتے میں تین دن بند رکھنے کا اعلان کیا ہے‘مرے کو مارے شاہ مدار شائد ایسے ہی مواقع پر بولا جاتا ہے۔آلودگی کے ذمہ دار عناصر کے خلاف موثر کارروائی اور فضائی آلودگی پر قابو پانا شائد انتظامیہ کے بس میںنہیں لہٰذا آسان نسخہ یہی سوجھا کہ تعلیمی ادارے بند کر دیے جائیں‘لیکن یہ سوال برقرار ہے کہ کیا شہر میں آلودگی سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ پھیلاتے ہیں اور وہ بھی صرف تین دن ‘باقی چار ایام بچے گھروں سے نکل کر آلودگی پھیلائیں گے‘ نہ متاثر ہوں گے۔ شیخ سعدیؒ ایک گائوں سے گزرے تو آوارہ کتے اُن پر حملہ آور ہو گئے۔ لاٹھی سے ڈرانے کی کوشش کی مگر بے سود‘ناچار سنگ زنی کا سوچا‘ برفباری کے باعث زمین سے چپکے پتھر اٹھانا مشکل ہو گیا‘تنگ آ کر پکار اٹھے ؎ ایں چہ حرام زادہ مردمان اند سنگ رابستہ و سگاں را کشادند فیض صاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا ؎ ہے اہل دل کے لئے اب یہ نظم بست و کشاد کہ سنگ وخشت مقید ہیںاور سگ آزاد آلودگی ختم کرنے اور قوم کے نونہالوں کو فضائی آلودگی کے علاوہ موسمی بیماریوں سے بچانے کا یہ نسخہ ایجاد کرنے پر پنجاب حکومت نوبل انعام کی مستحق ہے ۔دسمبر اور جنوری میں خدانخواستہ آلودگی مزید بڑھی تو تعلیمی ادارے پورا ہفتہ بند کرنے پڑیں گے اور اُمید کرنی چاہیے کہ سموگ کی چھٹیوں میں تعلیمی دورانیہ مکمل کرنے والے بچے اگلے سال گیارہ سو میں سے ساڑھے گیارہ سو نمبر لے کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کریں گے۔ہم اپنے بچپن میں چھٹیوں سے محظوظ ہونے کے لئے اپنے اساتذہ یا والدین کی بیماری اور سکول کے گرنے کی دعا مانگا کرتے تھے جو کبھی قبول نہ ہوتی‘کورونا کے باعث تعلیمی ادارے بند ہوئے تو بچوں نے اس منحوس وبا کے طوالت کی دعائیں مانگنا شروع کر دیں‘یہ اجتماعی دعا قبول ہوئی یا قدرت کو یہی منظور تھا‘ کئی ماہ تک بچوں نے عیش کی‘اب سموگ کی باری ہے‘والدین صبح و شام سموگ کے خاتمے کی دعائیں مانگ رہے ہیں کہ یہ چند ہفتے تک کاروبار زندگی معطل کر دیتی ہے مگر بچوں کی خواہش یہی ہو گی کہ ہر سال سموگ حملہ آور ہو ‘انہیں چھٹیاں ملیں اور وہ گھروں‘گلی محلوں میں دھماچوکڑی مچا تے پھریں۔ فضائی آلودگی صرف ہمارا مسئلہ نہیں‘پچھلے چند عشروں میں کئی ممالک اس کا شکار ہوئے اور انہوں نے احتیاطی تدابیر سے قابو پایا‘لندن اور بیجنگ ایک زمانے میں فضائی آلودگی کے باعث انسانی رہائش کے قابل نہیں رہے تھے‘ہیتھرو اور بیجنگ ایئر پورٹ پر فضائی ٹریفک معطل رہی‘ مگر برطانیہ اور چین کی حکومتوں نے موثر اقدامات کئے۔ فضائی آلودگی کا باعث بننے والے کارخانوں کو دور منتقل کیا‘ٹریفک کے نظام میں بہتری لائی گئی اور دھواں چھوڑنے والی ہر چیز کو بند کر دیا گیا۔چین کی حکومت نے تو بیجنگ پر آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لئے کم و بیش سو کلو میٹر دور ایک نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا جو تکمیل کے مراحل میں ہے اور دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ نیو یارک سے بڑا یہ ڈیجیٹل شہر اگلے ہزار سال تک کی ضروریات پورا کرے گا‘پاکستان میں مگر ہر خرابی کا علاج مزید خرابی کی صورت میں ڈھونڈا جاتا ہے‘شہر میں دہشت گردی بڑھی اور پتہ چلا کہ دو دہشت گرد موٹر سائیکل پر سوار تھے‘ ڈبل سواری پر پابندی لگا دی‘آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہوا تو پورے ملک کے تعلیمی اداروں کو دیواریں اونچی کرنے اور ان پر خار دار تاریں لگانے کا حکم صادر ہوا اور دھاتی ڈور سے اموات واقع ہوئیں تو پتنگ بازی پر پابندی لگ گئی‘اللہ اللہ خیر سلّا۔ آلودگی کے خاتمے کے لئے موجودہ حکومت نے تین سال تک مختلف اقدامات کئے‘فصلوں کی باقیات جلانے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں چلانے پر پابندی لگائی‘اینٹوں کے بھٹو ںکو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کا حکم صادر ہوا‘عملاً کیا ہوا؟کسی نے چیک کیا نہ مالکان سے باز پرس‘وزیر اعلیٰ کو مگر رپورٹ یہی ملی کہ ہر بھٹہ زگ زیگ ٹیکنالوجی کا حامل اور کوئلے پر چل رہا ہے پڑتال کرنے والے محکمے کے اہلکاروں نے خوب چاندی بنائی‘یہی حال دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا ہے۔جس ملک میں اڑھائی تین سال قبل الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کے لئے مراعات کا اعلان کیا جائے‘ٹیکسوں میں چھوٹ ملے‘لوگ مہنگی الیکٹرک گاڑیاں منگوا لیں مگر اب تک ان کی رجسٹریشن کا کوئی میکنزم طے نہ پا سکے وہاں سموگ کا خاتمہ ہماری آپ کی خواہش ہو سکتی ہے‘حکومت اور اس کے اداروں کی اولین ترجیح نہیں ؎ یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں وزیر اعلیٰ بزدار‘چیف سیکرٹری پنجاب اور پنجاب کے وزیر ماحولیات ایک دن اپنے محفوظ ٹھکانوں سے باہر نکلیں‘ لاہور کے گنجان علاقوں میں جائیں اور دھواں چھوڑنے والے موٹر سائیکلوں ‘رکشوں ‘چنگ چی‘کاروں اور ٹرکوں کا پیچھا کریں۔پتوکی‘ اوکاڑہ اور دیگر علاقوں میں بھٹوں میں دو نمبر زگ زیگ ٹیکنالوجی کی جانچ پڑتال کرائیں۔ لاہور کے اردگرد ڈیفنس روڈ‘شیخو پورہ روڈ پر کارخانوں اور فرنس بھٹیوں کی چمنیوں سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور پھر ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے ذمہ دار اداروں اور اہلکاروں کی رپورٹیں پڑھیں‘سارا کچا چھٹاکھل کر سامنے آ جائے گا مگر یہ زحمت کون اور کیوں کرے؟سکول بند کرنے کا نادر اور آسان نسخہ ہاتھ لگ گیا ہے تو اتنا تردد کرنے کی ضرورت کیا ہے؟