بولے تو لفظ باعث الزام ہو گئے ہم چپ رہے تو اور بھی بدنام ہو گئے تھی تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے دنیا تو جینے نہیں دیتی۔ ہر وقت ٹوہ میں لگی رہتی اوپر سے میڈیا اتنا تیز ہو گیا ہے کہ آپ مکر کے جائیں گے کہاں۔ مگر مکرنے والوں نے بھی حکمت آرائی کرلی ہے کہ جھوٹ کا نام ہی بدل دیا ہے۔ آپ میری بات سے اختلاف کرتے رہیں مگر اتفاق بھی کرسکتے ہیں۔ معاملات میں بہت تیزی آ گئی ہے مگر ہماے لیے مصیب یہ ہے کہ بات کرنی بھی ہے اور چھپانی بھی ہے۔ یگانہ نے تو کہا تھا علم کیا علم کی حقیقت کیا۔ جیسی جس کے گمان میں آئی۔ مگر کیا کریں کچھ بدگمانی بھی تو ہے اور غلط فہمی کے ساتھ ساتھ ٹھیک یا صحیح فہمی بھی تو ہے۔ بالکل درست کہا وزیراعظم نے کہ فضل الرحمن کو نیب کے سانے سرنڈر کرنا ہوگا۔ میں تو ڈرتا ہوں اور انہیں مولانا فضل الرحمن لکھوں گا۔ مگر اس میں بھی کوئی اعتراض کر ڈالے گا۔ تو بات ہورہی تھی کہ مولانا خود کو کسی نظم میں لائیں اور حکومت کی بات مان کر نیب کے سامنے پیش ہو جائیںدوسری بات دل کو لگتی ہے کہ کیا ضروری ہے کہ کوئی سرنڈر ہی کرے۔ نیب بڑھ کر اپنی کارروائی کرے اور ان لوگوں کے خلاف بھی جنہوں نے آٹے کی واردات کی اور اس پر کمیشن کی رپورٹ لائی گئی۔ ایویں مچا نہ شور۔ تیری بکل دے وچ چور۔ قبلہ یہ امتیازت ختم کرنا پڑیں گے۔ آپ کا تو نعرہ یہ تھا کہ صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف چلی۔ کسی ضابطے میںتو زلفوں کو لائو نہ الجھا رہے ہو نہ سلجھا رہے ہو اب توپوں کا رخ مولانا فضل الرحمن کی طرف ہو گیا ہے۔ پی ڈی ایم کی گاڑی سے انجن کو الگ کردیا جائے تو باقی خالی ڈبے مال برداری کے قابل بھی نہیں۔ جذباتیت سے کام نہیں چلے گا وگرنہ بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوگا۔ وفاقی وزراء باجماعت مولانا پر چڑھ دوڑے ہیں اور ان کی بات غلط بھی نہیں کہ مولانا فضل الرحمن ہر دور میں بلیک میل کر کے مراعات لیتے آئے ہیں اور وزراء کے مطابق اب یہ کھلواڑ نہیں چلے گا۔ اگر میرے محترم وزراء برا نہ منائیں تو ایک بیان ایم کیو ایم کے بارے میں بھی دے دیں جن کے ساتھ ہر حکومت بارگیننگ کرتی رہی اور پھر ایک بار نہیں بار بار۔ پورا پاکستان جانتا ہے ایم کیو ایم کی طرح کسی نے بھی حکومتوں تو استعمال نہیں کیا۔ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ واللہ میں مولانا کا دفاع نہیں کر رہا اور نہ ہی کوئی اور دفاع کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔مگر حق کا تقاضا ہے۔ پھندا ہے تو سب کے لیے۔ یہ کوئی سکھا ساہی تو ہے نہیں کہ جس کے گلے میں پورا آئے ڈال دو۔ جناب قوموں کی تاریخ میں یہی تو ہے کہ بڑے قانون سے بچ جاتے رہے بلکہ ان کے لیے قانون مکڑی کا جالا ثابت ہوتا ہے نہیں صاحب ایسے نہیں۔ یہی تو جھگڑا ہے یہی تو لڑائی۔ وزراء تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مولانا نے 25,25 لاکھ روپے کے چھ گھر ظاہر کئے وہ ایک گھر تین تین کروڑ روپے میں خریدنے کو تیار ہیں۔ ۔ آپ نے مولانا کا کاروبار پوچھا ہے تو وہ جواباً خان صاحب کا کاروبار پوچھیں گے تو کیا آپ کیا کہیں گے: یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا آپ کو چاہیے کہ زیادہ توجہ بلاول کی طرف دیں کہ وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ وہ عوامی طاقت کے ساتھ عمران سے استعفیٰ چھین لیں گے۔ بے چارے بلاول کو ذرا زبان کا مسئلہ ہے کہ استعفیٰ تو لکھوایا جاتا ہے خان صاحب استعفیٰ لکھیں گے تو ان سے لیا یا چھینا جائے گا۔ وہ چند روز پہلے یہ ضرور کہہ چکے کہ اگر پی ڈی ایم ایک ہفتہ دھرنا دے دے تو وہ استعفیٰ کا سوچیں گے۔ ویسے خان صاحب کسی معاملے میں بھی نہیں سوچتے اور یہ بات بھی انہوں نے سوچے سمجھے بغیر ہی کہہ دی تھی۔ فردوس عاشق اعوان نے ایک بات نہایت بلیغ کہی ہے کہ بہروپیوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ واقعتاً نہیں ہے کہ بہروپ دھارنے والا واقعتاًملامت کا مستحق ہے۔ مولانا شیرانی بھی پھٹ پڑے ہیں کہ مولانا خود سلیکٹڈ ہیں‘ جھوٹے اور مفاد پرست ہیں۔ ان کے علاوہ حافظ حسین احمد کی بھی اپنی ایک رائے ہے۔ ان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اچھا ہے کہ ہر جماعت میں آئینہ دکھانے والے موجود ہیں۔ کل میں نے ایک زبردست پروگرام دیکھا جس میںراجہ ریاض شہزاد پر طعنہ زن تھے اور اس سے پہلے خود پی ٹی آئی کے ممبران پوچھتے ہیں کہ پیرا شوٹرز کہاں سے آئے اورمنتخب کو یکسر انداز کردیا گیا۔ قوت سماعت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ این آر او این آر او سن سن کر اب تو کان پک گئے ہیں۔ بابا مان لیا اپوزیشن نے لکھ کر این آر او مانگا ہے اور یہ بھی طے کہ آپ نے لکھ کر انہیں رد کردیا۔ اب ذرا اپنا رخ عوام کی طرف تو کریں۔ ادھر ادھر کی چھوڑیں ہماری بات کریں۔ آج پھر ٹریلین ٹری بنی کا آغاز ہو چکا ہے جس پر عدالت پہلے ہی پوچھ چکی ہے کہ 5 لاکھ درخت تو بنی گالہ ہی میں لگے ہوں گے۔ لوگ جب بھی مہنگائی پر احتجاج کرتے ہیں آپ درخت لگانا شروع کردیتے ہیں‘ ایسے درخت جو ابھی پھوٹے نہیں ہیں۔ خان صاحب کے ایک انٹرویو بھی دلچسپ تھا کہ مہنگائی کے جواب میں کہا قوم کی دولت بڑھائیں‘ خاتون نے پوچھا لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں تو خان صاحب کہتے ہیں تو میں کیا کروں۔ کئی اور سوالوں کے جواب میں انہوں نے یہی کہا میں کیا کروں۔ اب یہ کہنے کی جسارت کون کرے گا کہ پھر آپ کرسی چھوڑ دیں۔ ذمہ دار آپ ہیں‘ ریاست مدینہ کے آپ دعودار ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے آج ہی کہا ہے ریاست مدینہ کا نعرہ لگانا آسان نمود و نمائش سے کام نہیں چلے گا۔ ویسے خان صاحب کے جواب میں کیا کروں کے کئی شیڈز ہیں۔ ہاں ہاں پھر پوچھیے میں کیا کروں۔ کوئی تو اس کا جواب دے گا۔