گزرتے ماہ وسال کے ساتھ جوں جوں بھارت کا مسلم کش چہرہ بے نقاب ہورہا ہے، توں توں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت اور علامہ اقبالؒ کی بصیرت پر ہمارا یقین و ایمان مزید پختہ ہوتا جارہا ہے۔گزشتہ ستر برس کے دوران بھارت نے بدترین فوجی جارحیت کے ذریعے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، اس پڑوسی نے سازشیں کرکے مشرقی بازو کو پاکستان سے جدا کردیا۔ بھارت نے مسلم آبادی کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم جب گجرات کا وزیراعلیٰ تھا تو اس کی زیرنگرانی ہزاروں مسلمانوں کو نہایت درندگی سے ذبح کیا گیا اور سینکڑوں کی تعداد میں انہیں زندہ جلایا گیا، سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں 44 انسانوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا، اب بھارت کا آخری بھرم بھی ان کی سپریم کورٹ نے سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کے سامنے سرنڈر کر کے ختم کردیا ہے۔ انڈین سپریم کورٹ نے سمجھوتہ ایکسپریس میں انسانوں کو زندہ جلانے والے مجرموں کو رہا کیا ہے اس پر ساری دنیا ہلکا بکا ہے۔ لیڈر شپ کا اصل کمال کیا ہے؟ ویژنری لیڈر وہ ہوتا ہے جو حاضر و موجود سے ماورا ہو کر مستقبل میں جھانک سکے اور اس کی روشنی میں اپنی قوم کے لیے بہترین آپشن کا انتخاب کرسکے۔ قائداعظم محمد علی جناح بہت عرصے تک ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر جانے جاتے تھے مگر جب ہندو قائدین نے اپنی ہندو نوازی سے یہ ثابت کردیا کہ مستقبل میں کانگریس ہندوستانی عوام کی نہیں فقط ہندوئوں کی جماعت ہوگی۔ تب قائداعظم نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ہی واحد باعزت حل ہے۔ 1928ء میں نہرو رپورٹ میں جس متفقہ آئین کی تجویز پیش کی گئی اس میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ طریق انتخاب کے اصول کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مسلم اقلیتی صوبوں میں آزادی سے زیادہ سیٹیں دینے کا جو طریق کار منظور کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں اسے بھی رد کردیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا اور علی الاعلان کہا کہ اب ہندوئوں سے ہمارے راستے بالکل جدا ہو گئے ہیں۔ 1930ء میں علامہ اقبال ؒ نے الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی خطبہ دیا اور اس میں تصور پاکستان پیش کیا۔ اسی زمانے میں قائداعظمؒ غیروں کی انتہا پسندی اور اپنوں کی بے اعتنائی سے مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے تاہم اس سارے زمانے میں قائداعظم مسلمانان ہند کے بارے میں بہت متفکر رہے۔ ان کی کیفیت بقول علام اقبالؒ یہ تھی کہ اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی اس دوران علامہ اقبالؒ قائداعظم محمد علی جناح کو مسلسل خطوط لکھتے رہے اور انہیں دو قومی نظریے کے بارے اپنے افکار و خیالات سے آگاہ کرتے رہے۔ علامہ اقبال کے ان خطوط کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح واپس ہندوستان آئیں اور مسلمانوں کی کشتی کو پار لگائیں۔ اسی زمانے میں چودھری رحمت علی کیمبرج یونیورسٹی میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہندوستان کے مسئلے کے حل کے لیے غور و خوض کرتے رہے۔ چودھری رحمت علی نے انگریزی میں ایک کتابچہ بھی لکھا اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے آزاد اسلامی ریاست کا خاکہ پیش کیا اور ساتھ ہی نئی خودمختار اسلامی مملکت ’’پاکستان‘‘ بھی تجویز کردیا۔ مجھے حیرت ہے کہ چودھری رحمت علی اور ان کے دیگر پرجوش ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل کیوں نہیں ہوئے یا انہیں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ اس معاملے پر تحریک پاکستان کے محقق اور نظریہ پاکستان کے قلمی محافظ ڈاکٹر صفدر محمود کو ضرور روشنی ڈالنی چاہیے۔ تحریک پاکستان کا مطالعہ کرتے ہوئے بعض دلچسپ حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قیام پاکستان اشارہ غیبی اور مشیت ایزدی تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو خواب سے حقیقت بنانے میں ہندوئوں کی مسلم دشمنی اور تنگ نظری کا بھی بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ جب ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریس کی 1937ء تا 1939ء حکوتم قائم ہوئی تو انہوں نے تو اس پارٹی سے ہندو نوازی اور مسلم دشمنی کی انتہا کردی۔ کانگریس نے اپنے زیر تسلط ریاستوں میں مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کردیئے اور ہندوئوں پر نوازشات کی بارش کردی۔ اس کے علاوہ بنگالی گیت ’’بندے ماترم‘‘ کو قومی ترانے کے طور پر تمام ہندو اور مسلمان بچوں پر گانا لازمی قرار دے دیا۔ مزید یہ کہ گاندھی جی کے مجسمے کی پوجا اور تعظیم کا حکم دیا گیا۔ ’’بندے ماترم‘‘ کا مطلب یہ کہ اے دھرتی ماں ہم تیری پوجا کرتے ہیں۔ مسلمان تو اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے سربسجود نہیں ہوتے۔ جب قائداعظمؒ نے بندے ماترم کو مشرکانہ ترانہ قرار دیا تو علامہ اقبال بہت خوش ہوئے۔ کانگریس کی اس ہندو نوازی اور مسلم دشمنی نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں۔ مسلمانوں نے سوچا کہ اگر انگریزوں کی موجودگی میں کانگریسی حکومت ان کے ساتھ شودروں سے بدتر سلوک کر رہی ہے تو کل ان کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد ہندو نواز حکومت مسلمانوں کا جینا دو بھر کردے گی۔ تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور سے پہلے 1939ء میں سندھ مسلم لیگ ایک آزاد مسلمان ریاست کا مطالبہ کر چکی تھی۔ اس مطالبے کا فیصلہ قائداعظم سے منظوری لینے کے بعد کیا گیا تھا۔ 23 مارچ اس لحاظ سے ایک اہم ترین تاریخی دن ہے کیونکہ اس روز مسلمانان ہند نے قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کا مطالبہ کرکے تاریخ کا ہی رخ نہیں بلکہ ہندوستان کا جغرافیہ بھی بدل دیا۔ مطالبہ بڑا واضح تھا کہ ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق کی ریاستوں کو اکٹھا کر کے ایک نئی مملکت قائم کی جائے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی۔ اس اسلامی ریاست میں مسلمانوں کو اپنے دین کے مطابق زندگی کے ہر شعبے میں ترتیب نو کا حق حاصل ہوگا جبکہ اقلیتوں کو اپنے اپنے عقیدے، اپنے اپنے کلچر اور اپنے اپنے مذہبی و ثقافتی طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہوگی۔ ہمارے چند کفیوژن فرینڈلی دوستوں کو طے شدہ اور واضح معاملات کے بارے میں طرح طرح کی بحثیں اٹھانے اور نئے نئے فتنے جگانے کا شوق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حصول پاکستان کے لیے دو قومی نظریہ اجاگر کیا گیا تھا مگر جب پاکستان حاصل ہو گیا تو اب اس نظریے کی ضرورت رہی نہ اہمیت۔ ہمارے ان فتنہ جو دوستوں کو معلوم نہیں کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی نظریہ پاکستان ہے۔ قائداعظمؒ نے خود بھی آئیڈیالوجی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ’’نظریہ پاکستان‘‘ ایجاد کیا گیا۔ اللہ کے بندو! دو قومی نظریہ کی بنیادی نظریہ پاکستان ہے۔ ہندوستان ایک بڑی قوم ہندو تھی۔ اگر ہندوئوں کی بات تسلیم کرلی جاتی کہ ہندوستان میں بسنے والا ہر شخص ہندوستانی ہے۔ اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جاتا تو پھر مسلمانان ہند ایک علیحدہ قوم کیسے قرار پاتے۔ مسلمان کسی جغرافیے، زبان، کلچر یا رسوم و رواج کی بنا پر نہیں کلمہ لاالٰہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک قوم تھے۔ اسی لیے قائداعظم نے بارہا کہا کہ پاکستان ایک روشن خیال اسلامی و جمہوری ریاست ہوگی جہاں اسلام کے معاشی و معاشرتی اور قانونی عدل کی حکمرانی ہوگی۔ اسی نعرے پر تحریک پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اس نعرے پر مسلمانان ہند نے 23 مارچ 1940ء کو مہر تصدیق ثبت کی تھی۔ میرے پیارے پاکستانیوں سیاسی نعرے چھوڑو نہ پرانا نہ نیا پاکستان صرف اور صرف قائد و اقبال کا پاکستان بنائو اور نظریہ پاکستان کو اجاگر کرو۔ یہی 23 مارچ کا پیغام ہے۔