سی ایس ایس اورپی ایم ایس دونوں کے امتحانات ہر لحاظ سے یکساں اور برابر ہیں۔سی ایس ایس افسران کی ترقی کا سفر تو ہوا کی سپیڈ سے بھی زیادہ تیزی سے اپنی منازل طے کرتا ہے جبکہ پی ایم ایس افسران سمیت دیگر سرکاری ملازمین کی ترقی کے سامنے نہ صرف سوالیہ نشان موجود ہے بلکہ بڑا سا ’’فل سٹاپ‘‘ لگا دیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے آئے روز سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران کے درمیان تنائو کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کو جیسے سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں کہ ساری اہم سیٹیوں پر صرف انہی کا استحقاق ہے۔ چئیرمین پلاننگ اینڈ ڈویپلمنٹ اور سنئیر ممبر بورڈ آف ریونیو کی اہم ترین سیٹ پر لازماً اور خالصتاً پی ایم ایس افسران کا استحقاق ہونا چاہئے لیکن یہاں پر بھی برسہا برس سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا قبضہ ہے۔چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری تو درکنار پی ایم ایس افسران کو سیکرٹری سروسز اور ایڈمن کی سیٹ تک نہیں دی جاتی۔سی ایس ایس افسران کی صوبائی روٹیشن پالیسی پر بھی عمل نہیں کیا جارہا سنئیر افسران خاص طور پر خواتین دہائیوں سے پنجاب چھوڑنے کو تیار نہیں۔پنجاب کو سونے کی چڑیا سمجھنے والے سی ایس ایس افسران کی ساری لاقانونیت کا مرکز پنجاب ہی ہے۔دوسروں صوبوں میں پنجاب کی نسبت صوبائی افسران کو نہ صرف ترقی کے یکساں مواقع موجود ہیں بلکہ اہم پوسٹوں پر بھی تعینات ہیں۔ ڈی ایم جی گروپ(موجودہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس) نے 1993 کی عبوری حکومت کے دور میں ایک غیر قانونی سیٹ شیرنگ فارمولا طے کروایا جس کے تحت صوبے کی تمام اہم آسامیوں پر براجمان ہو گئے اور صوبائی افسران کی ترقی کا راستہ روک دیا۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران تمام اہم آسامیوں پر قابض ہو جاتے ہیں اور اس طرح حکومت کی باگ ڈور اصل میں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ اپنی کلاس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔مضحکہ خیز طور پر گریڈ بڑھنے کے ساتھ ساتھ پی ایم ایس کا شیئر کم ہوتے ہوتے صفر ہو جاتا ہے۔صوبوں کے درمیان کیسا معاہدہ ہے جہاں چاروں صوبوں کے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے چیف سیکرٹری اسلام آباد جا کر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میٹنگ کرکے پوسٹیں تقسیم کر دیتے ہیں۔ اس میٹنگ میں کوئی صوبائی سروس کا نمائندہ نہیں بلایا جاتا۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی طرح پی ایس پی افسران نے محکمہ پولیس میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور صوبائی پولیس افسران کا استحصال کررہے ہیں۔ اے ایس آئی،سب انسپکٹر،انسپکٹر اورڈی ایس پیز رینک کے افسران کو دس سے بارہ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اگلے گریڈ میں ترقی نہیں مل پاتی۔ریٹائرمنٹ کا وقت آن پہنچتا ہے لیکن اے ایس آئی اور سب انسپکٹر بھرتی ہونے والوں کی اکثریت انسپکٹر اور ڈی ایس پی سے آگے نہیں جاپاتے۔ رینکر زپولیس افسران میں سے اگر دوچار پرموٹ ہو بھی جائیں تو انکو ساری زندگی اچھی پوسٹنگ نہیں ملتی۔پی ایس پی افیسر ایس پی گریڈ 18کے باوجود گریڈ انیس کی سیٹ پر بطور ڈی پی او براجمان ہوتے ہیں جبکہ رینکر ایس ایس پی گریڈ 19میں ہو کر بھی اس سیٹ کیلئے اہل نہیں سمجھا جاتا۔کچھ افسران خدا کی زمین پر خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہیں۔طبع نازک پر ذرا سی بات کیا ناگوار گزری فوری طور معطل ، ظلم کی انتہا دیکھئے معمولی سی وجہ اور حکم عدولی پرچھوٹے افسران کی دو دو سال کی سروس ضبط کرلی جاتی ہے۔عیدین و دیگر تہواروں پر بھی چھٹی نہ ملنے،میرٹ کے باوجود ترقی نہ ملنے کے غم میں پریشان حال چھوٹے پولیس ملازمین پر سروس ضبطی کا فیصلہ کسی آفت سے کم نہیں ہوتا۔ناحق سروس ضبط ہونے کے غم میں سینکڑوں افرادپولیس ڈیپارٹمنٹ کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں چیف سیکرٹری پنجاب نے وفاقی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو درخواست کی کہ انہیں واپس وفاق میں بلا لیا جائے۔چیف سیکرٹری کے اس اقدام کوصوبائی سروس کے افسران کی طرف سے انتہائی ناپسند کیا گیا۔آج جس صورتحال سے صوبہ دوچار ہے اور جس چیلنج کا حکومت کو سامنا ہے، اس کے تقاضے کچھ اور ہیں ، عام انتخابات سر پرآرہے ہیں اورآخری سال الیکشن کی تیاری کے ہوتے ہیں عوام کو راضی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،ان کے کام کئے جاتے ہیں۔ سابقہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ساڑھے تین سال کے (انڈرٹریننگ)پیریڈ سے زیادہ منصوبے ایک ماہ میں شروع کرنے والے نئے وزیراعلیٰ کا بیوروکریسی سے متعلق رویہ پروفیشنل ہے۔بڑی تعداد میں پراونشل سول سروس کے افسران کو اہم انتظامی عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے جسے صوبائی سول سروس نے بڑا مثبت اور انتہائی قابلِ ستائش قدم قرار دیا ہے۔پراونشل مینجمنٹ سروس کے افسران پر اظہار اعتماد ظاہر کرتے ہوئے انہیں اہم انتظامی عہدوں پر تعینات کیا ہے۔ جناب وزیراعلیٰ اگر پرموٹ ہوکرآنے والے محمد خان بھٹی کو پرنسپل سیکرٹری لگاسکتے ہیں تو اپنی قانونی وآئینی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے1200سے زائد افسران کی نمائندہ پی ایم ایس سے چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا تقرر کرکے پنجاب میں جمہوری سفر کا آغاز کریں۔وزیراعلیٰ پرویز الہی کو چاہئے کہ پنجاب کی صوبائی بیوروکریسی میں آئے روز اکھاڑ پچھاڑ کی بجائے بنیادی مسئلے کو سمجھا جائے ،انصاف کا ترازواس بات کا متقاضی ہے کہ سب کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں ۔