بالآخر نواز شریف ایک بار پھر حوالہ زنداں ہوئے۔جس دھج سے کوئی زنداں میں گیا وہ شان سلامت رہی نہ رہی میڈیا ضرور خاصی دیر کے لئے مصروف ہوگیا ۔شام کے ٹاک شو بھی اسی موضوع پہ ہوتے رہے اور رپورٹنگ بھی۔ایک بات لیکن قابل غور رہی کہ نہ ٹاک شوز میں پہلے جیسا مزہ تھا نہ رپورٹنگ میں کوئی سنسنی۔ نہ لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ نہ چیختے دھاڑتے ایک دوسرے کو دھکے مارتے نمائندے ہی ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کی کوشش میں مصروف نظر آئے۔ سب کچھ پھیکا پھیکا سا تھا۔نون لیگی قیادت کی آواز و انداز میں بھی وہ طنطنہ نہیں تھا جو ہونا چاہئے تھا۔آخر ان کا قائد اپنی باقی ماندہ سزا بھگتنے جیل جارہا تھا۔نواز شریف کو رخصت کرنے کتنے کارکنان جمع تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ مشاہد اللہ خان سے کاشف عباسی نے اس متعلق دریافت کیا تو اندازہ تھا کہ وہ کارکنان کی بہت بڑی تعداد میں جمع ہونے اور ان کے جوش و خروش کے حوالے سے کوئی دعوی کریں گے لیکن وہ تو کسی اور ہی موڈ میں تھے۔مکمل پست حوصلہ اور دل گیر۔انہوں نے کہا کہ ہم نے تو نواز شریف کو جیل چھوڑنے کے لئے کسی کو بلایا ہی نہیں تھا۔انہوں نے گلوگیر آواز میں یہ انکشاف بھی کیا کہ شہباز شریف کو لبلبے کا کینسر ہے اور پھر بھی وہ لندن میں مارے مارے پھر رہے ہیں تو یہ اسی ناہنجار حکومت کی وجہ سے ہے ۔انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں یہ دعوی بھی کیا کہ کلثوم نوا ز مرحومہ لندن میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن اس حکومت کو رحم نہ آیا۔ کاشف عباسی یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور یہ نہ پوچھ سکے کہ مرحومہ کلثوم نواز کا علاج تو لندن کے مہنگے ترین اسپتال میں ہوتا رہا۔ اس حکومت کی کیا مجال تھی کہ انہیں اس حق سے محروم رکھتی۔ سرہانے ان کے شریک حیات بیٹھے رہے جو پاکستان میں مقدمے میں مطلوب تھے ۔ صاحبزادی ٹوئٹ کرتی رہیں جو خود بھی مطلوب تھیں اور دونوں کا پاکستان میں انتظار ہورہا تھا ۔ انسانی المیوں کی حقیقی داستانیں اس سے کہیں زیادہ اشک آور اور روح کش ہیں۔کوئی ان لیگی قائدین کو بتاتا کیوں نہیں کہ ان جذباتی بنیادوں پہ کتنے لوگوں کو متحرک و مجتمع کیا جاسکتا ہے اور آخر کیوں؟ رانا ثنا سے اس بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے بھی گول مول جواب دیا۔بس اتنا کہا کہ وہ دو گھنٹے سے گاڑی میں بیٹھے ہیں لیکن منزل ہنوز دور است۔ اس پہ ایک لطیفہ تو بنتا ہے۔ کسی شیخی خور نے کہا :میرے دادا کے پاس اتنی زمین ہے کہ ہم گاڑی میں بیٹھے شام تک چلتے رہیں لیکن زمین ختم نہیں ہوتی۔سننے والا بولا۔ایسی گاڑی کبھی میرے پاس بھی تھی۔میں نے بیچ دی۔مریم نواز نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ٹوئٹ کی کہ نواز شریف کابیانیہ جاتی امرا سے کچا جیل روڈ تک گونج رہا ہے۔بیانیے کے اس اہم ترین موقع پہ مضحکہ خیز حد تک سکڑ جانے کا جواب خود مریم نواز پہ ہی ادھار ہے۔ دیکھا جائے تویہ حالیہ شو نون لیگی نو منتخب قیادت اور خود مریم نواز کا ٹیسٹ کیس تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام کا جم غفیر ووٹ کو عزت دینے نواز شریف کے ہمراہ نکل کھڑا ہوتا۔ پرجوش کارکنان خود سوزی کرتے۔ مزید پرجوش کارکنان خود کو اپنے قائد کے ہمراہ داخل زنداں ہونے کے لئے مرنے مارنے پہ تل جاتے۔جیل بھرو تحریک چلائی جاتی۔ایک منتخب اور محبوب وزیر اعظم کو سازش کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنے اور اپنے لاڈلے کو لابٹھانے والی اسٹیبلشمنٹ سے شاکی عوا م اپنے جمہوری حق کی خاطر بغیر کسی کے اکسائے سڑکوں پہ نکل آتی اور نادیدہ ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتی۔افسوس ایسا تب بھی نہ ہوا جب اس نہ برپا ہونے والی تحریک کی قیادت خود نواز شریف کررہے تھے۔اس بار نو تنظیم شدہ نون لیگ جس میں نون نہیں تھا،بے دلی سے پروگرام کا بقیہ حصہ نشر کرتی رہی۔ واضح طور پہ محسوس ہوا کہ سارا شو ہی نیم دلانہ تھا۔اگر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا کوئی ارادہ تھا تو سوائے مریم اورنگ زیب کے زنانہ طعنوں کے باقی قیادت بجھی بجھی سی رہی ۔ اس کے برعکس حکومتی محاذ بدستور گرم رہا اور تحریک انصاف کا اینٹی کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار کے مجرموں کی مذمت کا بیانیہ پورے زور و شور اور بغیر کسی رو رعایت کے دہرایا جاتا رہا۔ اس سارے قصے میں بہت سے سوال ہیں جو نون لیگ کا کارکن اپنی قیادت سے کرنے کا حق رکھتا ہے۔وہ ایک ایسے شخص کے لئے سڑکوں پہ کیوں نکلے جس کی اپنی اولاد عدالت کو مطلو ب ہے لیکن وہ لندن میں مزے سے بیٹھی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ جس کا اپنا بھائی اور سابق وزیر اعلی خود اس سادہ مگر پروقار تقریب میں موجود نہیں بلکہ لندن کی سڑکوں پہ دوڑتا پھر رہا ہے اور اس کا بیٹا شیشہ بار میں بیٹھا شیشہ پی رہا ہے۔ اسے اپنے پیارے تایاجان سے کوئی دلچسپی نہیں۔جس کا اپنا سمدھی اور سابق وزیر خزانہ ایک مفرور مجرم ہے اور اتفاق سے اس کا ٹھکانہ بھی لند ن ہی ہے۔ایسے میں سڑکوں پہ لاٹھیا ں کھانے کے لئے ایک عام کارکن کیوں نکلے جو پہلے ہی اپنی قیادت کی کرپشن اور بدعنوانی کے باعث گالیاں کھا رہا ہے۔پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہ نظریاتی نہیں شخصیاتی ہے۔یہ سوچنا نون لیگی قیادت کا کام ہے کہ نواز شریف کے بغیر یا جیل میں بیٹھے نواز شریف کے نام پہ کب تک سیاست کی جاسکتی ہے۔انہیں علم ہے کہ بیانیہ کی کھچڑی میں بہت عرصے تک پانی نہیں ملایا جاسکے گا جو پہلے ہی کافی پتلی اور پھیکی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ اپوزیشن کی سیاست کی جائے تاکہ نون لیگ کو زندہ رکھا جاسکے۔عمران خان کی حکومت پہلے ہی ہر طرف سے تنقید کی زد میں ہے اور ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت اس کے ہراچھے اقدام پہ چپ سادھ لی جاتی ہے جبکہ معمولی لغزشوں پہ آسمان سر پہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ایسے میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا مطلب بس بلاوجہ اور ہر وقت کی تنقید ہوگا۔یہ کام بہت آسان ہے لیکن اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھیں گے اور اس سے نون لیگ کو کوئی غرض نہیں ۔ اس حکومت کو وقت سے پہلے گرانا نہ کسی کے بس کی بات ہے نہ ہی یہ ان کا مطمع نظر ہے۔بڑھتی ہوئی گرانی اور پیٹرول کی قیمت وہ ہتھیار ہیں جن سے یہ تھکی ہاری اپوزیشن فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گی۔ ویسے تو عوام کو خاصا شعور آچکا ہے کہ یہ حالات کیونکر ہوئے ہیں لیکن ماضی کا آموختہ بہت دن سنایا نہ جاسکے گا۔ حکومت کو اگلے شو سے بچنے کے لئے عوام کو ہر صورت میں ریلیف دینا ہوگا۔ اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ عمران خان اندھا دھند قرضے لے کر عوام کو وقتی ریلیف دیں اور بقیہ عمر لندن میں عیش و آرام سے گزاریں۔