میری آنکھوں میں چاند اتارا گیا کس محبت سے مجھ کو مارا گیا میرے بازو نہیں رہے میرے لو مرا آخری سہارا گیا محبت پہ کالم آیا تو پذیرائی کی حد ہو گئی ۔ یہ میری نہیں محبت کی پذیرائی تھی اور تو اور شبی الماس نے امریکہ سے کومنٹ کیا کہ لگتا ہے محبت آپ کے پیچھے پڑ گئی ہے اور ساتھ ہی علی معین کا خوبصورت شعر بھی لکھ دیا’’کوئی تعویذ ردِ بلا کا۔ مرے پیچھے محبت پڑ گئی ہے‘‘محبت پہ تو ہزاروں باتیں ہو سکتی ہیں مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی۔ میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی۔ بہرحال ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا۔آج تو میرا دل چاہ رہا تھا کہ اپنے محترم نصرت فتح علی خاں کی 23ویں برسی کے حوالے سے کچھ لکھوں مگر کچھ حالات حاضرہ کے بھی تو تقاضے ہیں کہ اخبار میں مین سرخی لگی ہوئی ہے کہ وزیر اعظم نے عوام کے 2344 ارب روپے بچائے۔ تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں پھر بھی ریکوڈک میں 1100 کار کے 240،جی آئی ڈی سی 400اور آئی پی پی کے ساتھ نئے معاہدوں سے 604ارب روپے بچت کیے۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے۔ ایک مرتبہ منیر نیازی کی کچھ رقم جو کہ ان کی وراثت کی مد میں تھی ملنے کا امکان ہو گیا تو وہ اصغر ندیم سید سے کہنے لگے یار جب یہ رقم مجھے مل جائے گی تو کیا میں افراط زر کا تو شکار نہیں ہو جائوں گا۔ ظاہر ہے بیٹھے بٹھائے ڈوبی ہوئی رقم مل جائے تو وہ سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ میرا خیال ہے شبلی فراز صاحب بھی تشویش کا شکار ہو گئے ہیں کہ اتنی زیادہ بچت ہو گئی ہے کہ یہ رقم جو تین بجٹوں کے برابر ہے بچا لینا کوئی معمولی بات نہیں۔ چلیے اس پر مزید کیا لکھنا وہ جو کہہ رہے ہیں ظاہر ہے کسی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ یہ ہرگز ویسی بات نہیں کہ جیسی شہباز شریف نے چنیوٹ سے پرات بجا کر اعلان کیا تھا کہ اتنا پیتل اور دوسری معدنیات مل گئی ہیں کہ خزانہ بھر جائے گا۔ ہم کیا کریں کہ ہمارا تو تیل بھی نکلتا نکلتا رہ جاتا ہے۔ ہمارا تیل نکلنے سے مراد سمندر سے نکلنے والا متوقع تیل ہے۔ ویسے شبلی صاحب کی یہ بات مجھے عجیب لگی کہ انہوں نے کہا کہ جسے اطمینان نہیں اور سیاسی اختلاف ہے تو وہ پارٹی چھوڑ دے۔ ایک مرتبہ یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا تھا کہ جو ان کی پارٹی کے فیصلوں سے مطمئن نہیں وہ پاکستان چھوڑ دے۔ میرے حافظے میں تو ایسے ہی کیا۔ کیا کریں اس حافظے کا تبھی کسی استاد نے کہا تھا: یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا لیجیے ساتھ ہی مجھے ایک اور لاجواب شعر یاد کے حوالے سے یاد آ گیا: روز کہتا ہوں بھول جائوں اسے روز یہ بات بھول جاتا ہوں ویسے ہم اپنے حکمرانوں کی باتیں بھولتے ہوئے دیر نہیں لگاتے۔ تبھی تو کسی نے کہا تھا پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں۔ پھر وہی زندگی ہماری ہے۔ یہ ہمارے سیاستدان بدلتے ہیں کہ ادھر ڈوبے اور ادھر نکلے۔ کے مصداق پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور اب تو وہ لوٹا کہلوا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتے بلکہ اس کو عین سیاست کہتے ہیں۔ لیجیے مجھے یاد آیا کہ اپنے سائنس دان فواد چودھری کا بیان بھی ہمارے دل کو بھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ مریم نواز حکومت کے خلاف نہیں شہباز شریف کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں ویسے فواد چودھری ہیں بڑے دور اندیش‘ دور کی کوڑی لاتے ہیں اور آفتاب میں ستارے ٹانگتے ہیں۔ سچی بات یہ کہ ہم تو اس بیان سے بہت متاثر ہوئے کہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔ لگتا ایسے ہی ہے کہ مریم نواز کو نیب کی طرف سے بلانے میں ہو نہ ہو چچا شہباز کا ہاتھ ہو اور مریم پر سنگ باری بھی انہوں نے کروائی ہو وگرنہ نیب ایسے کام ہرگز نہیں کر سکتی۔ اگر جوابی پتھرائو پولیس نے بھی کیا ہے تو پولیس میں اکثریت شہباز شریف کی بھرتی کی ہوئی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ شہباز شریف کو کوئی لانا چاہتا ہے جس کی نشاندہی خود شہباز شریف بھی کر چکے ہیں۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا اور پھر یہ سب کچھ یقینا کھیل ہے اک دیوانے کا آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں وزیراعظم کی ڈھیر ساری بچت کو چھوڑ کر معمولی معاملات پر لکھنے لگ گیا ہوں۔ اب بتائیے اس پر مزید کیا لکھا جا سکتا ہے یہی کہ اگر اتنی بڑی متاع ہاتھ لگی ہے تو غریبوں کو بھی عملی طور پر سمجھائو اور کوئی آسودگی پہنچائو۔ مگر آپ نے تو گیس 5روپے کلو بڑھا دی ہے۔ خیر سنا ہے کہ بجلی سستی ہو رہی ہے۔ نہ جانے شوکت واسطی کا شعر کیوں کلبلا رہا ہے: بڑے وسوخ سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم بھی فریب کھاتے ہیں اب ذرا سا ذکر ہو جائے نصرت فتح علی خاں کا۔ کیا ہی کمال آدمی تھے ایک دم درویش اور معصوم۔ محبت کرنے والے قدرت نے شہرت اور پیسہ انہیں تھوک کے حساب سے دیا تھا۔ بڑی باتیں اور یادیں ہیں۔ کل کی بات لگتی ہے 23برس گزر گئے صرف ایک دلچسپ یاد آپ کے ساتھ شیئر کروں گا کہ وہ پی ٹی وی پر کلام اقبال کے لئے آئے تو انہوں نے شکوہ اور جواب شکوہ کا کچھ حصہ پیش کیا تو برآمدے میں میں نے کچھ الفاظ کی طرف ان کی توجہ دلائی تو بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے شاہ صاحب آپ سٹوڈیو میں آئیں۔ وہاں جانے سے پہلے بہت وقت گزر گیا۔ ایک روز ان کے پروڈیوسر سیکرٹری اور سب کچھ تھے مجھے فاروق سٹوڈیو میں ملے تو کسی شعر سے متاثر ہو کر زبردستی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے میں پوچھتا ہی رہ گیا وہ کہتے گئے کہ کوئی بات نہیں آپ کو ایک درویش سے ملانا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم ایک کوٹھی میں جا کر بیٹھے۔ میں حیران رہ گیا کہ اندر کے کمرے سے ڈرائنگ روم میں نصرت فتح علی خاں برآمد ہوئے۔ آتے ہی کہنے لگے سعداللہ شاہ آئے ہیں۔ اقبال نقیبی کہنے لگے آپ نے تو سارا سسپینس ہی توڑ دیا ہم تو آپ کو سرپرائز دینے والے تھے۔خیر خاں صاحب کہنے لگے شاہ جی آپ میرے پاس آ جائیں اور کوئی تازہ شعر سنائیں میں نے تازہ شعر پڑھ دیا: وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے خان صاحب نے فوراً حکم دیا اور آرکسٹرا حاضر ہو گیا ان میں راحت فتح علی خاں بھی تھا۔ نصرت صاحب نے میرے سامنے اس غزل کی دھن بنائی اور سب لوگوں کے درمیان گا کر اس کا ٹریک ریکارڈ کروایا۔ مجھے کہنے لگے کہ شاہ جی کیا آپ میری بنی ہوئی دھنوں پر لکھیں گے؟ میں نے ابھی بات یہ ہے‘ہی کہا تھا کہ فوراً بولے مجھے پتہ تھا یہ اوریجنل شاعر ہے دھن پر نہیں لکھے گا۔ قدرت ان پر بہت مہربان تھی۔ وہ جہاں جاتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا: کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے