کیا آپ کو معلوم ہے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے اخراجات کی مالیت کیا ہے؟ سی این ین کے مطابق 2 ٹریلین ڈالر۔ یعنی بیس ہزار کروڑ ڈالر۔ایک ٹریلین میں ایک ہزار بلین ہوتے ہیں۔گویا دو ہزار بلین ڈالر امریکہ نے اس جنگ میں جھونکے۔یاد رہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ نو اعشاریہ چھ بلین ڈالر کے قریب ہے۔ یعنی پاکستان کے دو سو آٹھ سال کے دفاعی بجٹ کے برابر رقم امریکہ نے افغانستان کی جنگ میں خرچ کر دی۔ہمارے دفاعی بجٹ سے دو سو آٹھ گنا زیادہ رقم ۔سوال اب یہ ہے کہ اتنی غیر معمولی قیمت دے کر امریکہ نے کیاحاصل کیا؟ برائون یونیورسٹی کا ایک پراجیکٹ ہے جسے ’ کاسٹ آف وار پراجیکٹ‘ کہتے ہیں۔اس پراجیکٹ کی ڈائرکٹر نیٹا کرافرڈ ہیں جو برائون یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کی پروفیسر بھی ہیں۔کاسٹ آف وار پراجیکٹ کی تحقیق کے مطابق 2011 سے 2017 تک امریکہ نے افغانستان میں 2ٹریلین ڈالر خرچ کیے۔واٹسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ رقم 4 اعشاریہ 8 ٹریلین ہے۔یہ معمولی رقم نہیں ہے۔ اس رقم سے کسی ایک ملک کی نہیں ، براعظموں کی قسمت بدل سکتی ہے۔بلکہ بر اعظموں کی ہی کیا دنیا بھر کی قسمت بدل سکتی ہے۔ کولمبیا یونورسٹی کے جیفری ساکس ، جو غربت کے خاتمے کے حوالے سے دنیا کے نمایاں ترین ماہرین معیشت میں شامل ہیں اور جن کی کتاب ’’ دی اینڈ آف پاورٹی‘‘نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلر میں شامل رہی ہے، کہتے ہیں کہ اگر ہر سال 175 بلین ڈالر خرچ کیے جائیں تو بیس سالوں میں دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔یہ کل3500 بلین ڈالر بنتے ہیں۔ اب ایک طرف ساڑھے تین ہزار بلین ڈالر سے پوری دنیا کی غربت ختم ہو سکتی ہے لیکن امریکہ صرف افغانستان اور مشرق وسطی کی جنگ میں 5 ہزار بلین ڈالر جھونک دیتا ہے تو سوال تو پیدا ہو گا کہ اس ایڈونچر کے نتیجے میں امریکہ کو کیا حاصل ہوا۔ اس بات کو ایک اور زاویے سے سمجھئے۔ جاپان دنیا کی مستحکم ترین معیشتوں میں سے ایک ہے۔ اس وقت بھی امریکہ اور چین کے بعد غالبا جاپان ہے جسے دنیا کی تیسری مستحکم معیشت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی جی ڈی پی کا حجم 4 اعشاریہ7 ٹریلین ڈالر ہے۔ گویا یوں سمجھئے کہ امریکہ نے جاپان کی سالانہ جی ڈی پی سے کچھ زیادہ رقم اس جنگ میں جھونک دی ہے۔ امریکہ کی اپنی جی ڈی پی کا حساب لگائیں تو گویا اس نے اپنی جی ڈی پی کا 35فیصد اس میںصرف کر دیا۔سوال وہی ہے : حاصل کیا ہوا؟ افغانستان کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ بی بی سی کے مطابق جس وقت امریکہ نے طالبان پر حملہ کیا اس وقت طالبان کے قبضے میں جتنا علاقہ تھا آج طالبان اس سے زیادہ علاقے پر قابض ہیں۔تو کیا سترہ سال کی جنگ میں امریکہ نے یہ کامیابی حاصل کی ہے کہ آج طالبان پہلے سے زیادہ علاقے پر قابض ہو چکے ہیں؟ امریکہ نہ سہی تو اس کے فکری رضاکاروں ہی میں سے کوئی ہماری رہنمائی فرما دے کہ امریکہ طالبان کا قبضہ ختم کرنے آیا تھا یا اس میں مزید اضافہ کروانے؟فرح اور غزنی تو طالبان نے قابض ہونے کے بعد خالی کر دیے کیونکہ مقصد شاید صرف اپنی قوت کا احساس دلانا تھا لیکن بی بی سی کا کہنا ہے کہ ہلمند اور قندھار جہاں امریکہ اور برطانیہ کے سینکڑوں فوجی مارے گئے آج بھی عملا طالبان کے قبضے میں ہیں۔ سنگین ، موسی قلعہ اور ناد علی جیسے علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ ہلمند میں چار سو پچاس برطانوی فوجی مارے گئے لیکن وہاں آج بھی طالبان کا راج ہے۔ بی بی سی ہی کی گواہی ہے کہ افغانستان حکومت کی عملداری صرف تیس فیصد افغانستان پر ہے ۔ اس تیس فیصد کا عالم بھی یہ ہے کہ اس کے پندرہ فیصد اضلاع پر اوسطا ہر ہفتے طالبان دو حملے کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ باقی کا 70 فیصد کس کے قبضے میں ہے؟ الجزیرہ کے مطابق ساٹھ اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہے اور ایک سو بیس اضلاع پر کسی کا بھی قبضہ نہیں۔دنیا بھر کی عسکری قوتوں نے سترہ سالہ جنگ کے بعد کیا یہ کامیابی حاصل کی ہے؟ کہاں کروفر کا یہ عالم تھا کہ طالبان کا نام سننا بھی گوارا نہ تھا اور کہاں یہ بے بسی ہے کہ افغان حکومت سے بالاتر براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔کیا دنیا کی سپر پاور اتنی ہی بے بس ہو گئی ہے کہ ایک ’’ نان سٹیٹ ایکٹر‘‘ کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر بات چیت کرنے پر مجبور ہے اور ازرہ تکلف ایک رسم سی پوری کرنے کے لیے بھی افغان حکومت کو اس میں ساتھ بٹھانے کی زحمت نہیں دے رہی؟کیا یہ طالبان کی حیثیت کا اعتراف نہیں ، اور کیا افغانستان کی حکومت کی اوقات کا اعلان عام بھی نہیں؟کیا یہ منادی نہیں دی جا رہی کہ فریق امریکہ ہے اور طالبان ، رہ گئی افغان حکومت تو اس کی حیثیت ایک گٹھ پتلی سے زیادہ کی نہیں۔یہی مذاکرات کرنے تھے تو اس کی پیش کش تو ملا عمر پہلے روز سے کر رہے تھے ۔ اتنا خون بہانے اور ٹریلین ڈالر برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ Shock and awe سے لے کر بموں کی ماں کے استعمال تک قریبا سبھی آپشنز استعمال کرنے کے باوجود طالبان سے بالآ خر مذاکرات ہی کرنے پڑ رہے ہیں تو سوال تو پیدا ہو گا کہ اس ساری مہم جوئی سے امریکہ نے کیا حاصل کیا؟ کل امریکہ کے سر پر یوں خون سوار تھا کہ القاعدہ کی بلا طالبان کے گلے میں ڈال دی گئی اور آج عالم یہ ہے کہ وہی امریکہ انہی طالبان سے ضمانت مانگ رہا ہے کہ آپ افغانستان کی زمین داعش یا کسی اور گروہ کو ہمارے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔سترہ سال پر محیط آگ اور خون کے کھیل کے بعد بھی اگر یہ ضمانت طالبان سے لینی پڑ رہی ہے تو سوال تو پیدا ہوگا کہ امریکہ نے اس جنگ سے کیا حاصل کیا؟ طالبان کی افرادی قوت بھی ایک اور ہی داستان سنا رہی ہے۔ آج سے دس سال قبل امریکی اور افغان انتظامیہ کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق طالبان جنگجوئوں کی تعداد پندرہ ہزار تھی آج بی بی سی کے مطابق یہ تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔اتنی فوجی قوت اور اس بے رحم انداز سے اسلحہ کے استعمال کے باوجود طالبان جنگجوئوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے توآپ الفاظ کے جتنے لبادے مرضی اوڑھا دیں یہ سوال تو سر اٹھاتا رہے گا کہ یہ جنگ کس نے جیتی اور شکست کس کا مقدر بنی؟