صبح چھ بجے گھر سے روانہ ہونا پڑا کہ ایک چینل پر 23مارچ کے حوالے سے ایک پروگرام میں شرکت کرنا تھی۔ایسی ایسی باتیں ہوئیں اور ایسی ایسی باتیں کہیں کہ یوں لگا کہ خوابوں کی یاد آ گئی کہ جو ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔اس لئے اہل نظر کہتے ہیں تحریک پاکستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔اس محفل میں کون کون تھا‘اس کا تذکرہ تو بعد میں کرتا ہوں مگر یہ بتائے دیتا ہوں کہ کوئی جذباتی بات نہیں ہوئی جو اس دن کے حوالے سے ہماری گفتگوئوں کا وطیرہ ہوا کرتا ہے۔مجھے تو ایسے موقع پر ایک ہی بات یاد آتی ہے جسے میں تحدیث نعمت کے طور پر عرض کیا کرتا ہوں اور وہ یہ کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جسے اپنی تخلیق کے وقت اقبال جیسا مفکر اور جناح جیسا مدبر نصیب ہوا ہو۔ہمارے قائد اعظم سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ اقبال اور سلطنت کے درمیان کس کا انتخاب کریں گے یعنی انہیں دونوں میں سے کسی ایک کو چننے پر مجبور کیا جائے تو انہوں بلاتردد کہا کہ اقبال کا۔مطلب یہ تھا کہ اقبال کی فکر ہو تو وہ یقیناایسی سلطنت کو جنم دے سکتی ہے جس کے پیچھے ایک نظریہ ہو مگر اس کے بغیر اقبال کے نظریے کے بغیر تو پاکستان محض ایک جغرافیے کا نام ہو گا۔جی ہاں خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی جی میں اپنے ان رہنمائوں کا ایک ایک فقرہ نقل کرتا ہوں جو انہوں نے مختلف اوقات میں کہا۔قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان اسی وقت وجود میں آ گیا تھا جب اس سرزمین پر پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔یہاں مسلمان ہوا تھا کہا گیا ہے‘یہ نہیں کہا گیا جب پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا۔مطلب یہ کہ پاکستان عسکری تسخیر سے پیدا نہیں ہوا‘بلکہ اس وقت پیدا ہوا جب یہاں ایک نئی تہذیب‘ایک نئے نظریے نے جڑ پکڑ لی اور اسی کا نام پاکستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کے لئے بہترین نظام حیات روحانی جمہوریت ہے۔جو لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے‘وہ اس وقت اسے صرف قائد کے قول کی روشنی میں دیکھیں۔میں کہا کرتا ہوں کہ پاکستان کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی‘اس وقت نہیں جب قرار داد پاکستان پاس ہوئی‘بلکہ اس وقت جب علی ہجویری داتا گنج بخش ؒنے اس سرزمین پر قدم رکھا‘اقبال نے داتا صاحب کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس سے دور فاروقی کی یاد اس خطے میں تازہ ہو گئی۔انہوں نے یہاں فاروق اعظم ؓکو کیوں یاد کیا۔اوروں کا تذکرہ بھی کر سکتے تھے۔خود ایک مولوی صاحب کی زبانی انہوں نے اپنے بارے میں یہ بات رقم کی ہے کہ: ہے اس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا تفضیل علی ہم نے سنی اس کی زبانی اور حضرت صدیق اکبرؓ کا بھی حوالہ دے سکتے تھے۔جن کے بارے میں ایچ جی ویلز جیسے شخص نے کہا کہ حضور نبی کریمؐ اسلام کی روح تھے اور ابوبکرؓ اس کی تجسیم حضورؐ کے بعد اگر صدیق اکبرؓ کا ایمان بروئے کار نہ آتا اور منکرین زکوٰۃ اور نبوت کے دعوے داروں کے خلاف جہاد نہ کیا جاتا تو دین تو باقی رہتا مگر سلطنت بکھر جاتی۔تاہم یہ سلطنت اس وقت رائج ہوئی جب فاروق اعظمؓ کے زمانے میں روم اور ایران حتیٰ کہ مصر تک اس میں شامل ہوئے اور ایک پورا نظام حکومت ترتیب پایا۔ایسا نظام کہ مغرب میں آج بھی بعض قوانین کو حضرت عمرؓ سے منسوب کیا جاتا ہے۔گویا داتا صاحبؒ اقبال ؒکی نظر میں اس سرزمین نہیں اس روحانی سلطنت کی بنیاد بنے جو آگے چل کر ہم تک پہنچا ۔اس میں خواجہ اجمیر سے لے کر حضرت نظام الدین اولیاؓ نے جو نابغہ روزگار فکری‘ ذہنی اور عملی کارنامے انجام دیے ان کا میں یہاں ذکر کیا کرتا ہوں۔تاہم جب مابعد الطبیعات میں ایسی خرابی پیدا ہو گئی کہ رام اور رحیم کو ایک کہنے والے پیدا ہو گئے تو مشیت الٰہی نے مجدد الف ثانی ؒکا نزول فرمایا اور گویا ہمارا روحانی سفر یہاں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا جسے پاکستان کہا جا سکتا ہے۔یہ کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔ میں یہ بھی کہتا ہوں پاکستان کی تاریخ سمجھنا ہو‘میرا مطلب ہے روحانی اور تہذیبی تاریخ کی ‘تو چار کتابیں ترتیب کے ساتھ سبقاً سبقاً پڑھ لے۔کشف المحجوب ‘مکتوبات مجدد الف ثانی ‘شاہ ولی اللہ کی حجتہ البالغہ اور اقبال کے خطبات شاعری سمیت سب کہانی سمجھ آ جائے گی۔ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں ایک بات بڑی وضاحت سے کہی تھی کہ اسلام انسان کی وحدت کو روح و مادے یا ریاست و کلیسا کی ثنویت میں تقسیم نہیں کرتا۔یہ گویا سیکولر ازم کے نظریے کی نفی تھی اور ہمارے قائد نے تو زندگی بھر سیکولرازم کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا۔اب تفصیلی بحث ہے کہ اقبال نے کہاں کہاں ہماری راہیں سیدھی کیں۔اورنگزیب کے بارے میں کہا کہ جب دارا کی شکل میں دین الٰہی دوبارہ زندہ ہونے لگا تو اورنگزیب کا ظہور ہوا اور یہ میرے ترکش کا آخری تیر تھا۔ سبحان اللہ یہی بات ٹیپو سلطان کے بارے میں بھی جزوی طور پر کہی جاتی ہے۔ پھر اقبال یاد آیا جنہوں نے کہا تھا 1799میں اگر دو باتیں نہ ہوتیں ایک تو نپولین کے بیڑے کو بحیرہ روم کے پانیوں میں شکست نہ ہوتی اور دوسرا سرنگا پٹم کا قلعہ ختم نہ ہوتا اور ٹیپو سلطان شہید نہ ہوتے تو دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ہم ایسی تاریخ کو راہ راست پر لانے پر لگے ہیں اور پاکستان اس جدوجہد کا نام ہے۔ افسوس میں اپنی بات ہی مکمل نہیں کر سکا پروگرام کے شاندار سکالرز کا تذکرہ کیا کروں۔کم از کم پیر صاحب مانکی شریف کے خاندان کے چشم و چراغ صاحبزادہ محمد امین کی گفتگو تفصیل سے بیان کرتا یا خیبر پختونخواہ کے ریفرنڈم کا ایمان افروز تذکرہ۔پھر وہاں اس محفل کی جان پروفیسر کاشف فراز تھے انہوں نے ایک بہت عمدہ بات کی کہ پاکستان تو گویا مسلمانوں کے دلوں میں اس دن بس گیا تھا جب میر عرب کو یہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔پروفیسر محمد علی کاظمی نوجوان ہیں اور انہوں نے درست کہا کہ یہاں روحانی سلسلوں کا آغاز بالخصوص سید علی ہجویریؒ کی آمد ایک سلطنت کی ابتدا کے لئے تھی۔جو ایک روحانی سلطنت ہے۔آخر میں الحاج محمد سلیم ہاشمی نے تو نقشہ باندھ دیا۔