23مارچ 1940ء سے 14مارچ 1947ء تک کا سفر برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی شناخت کے لئے جدوجہد کرتے گزارا۔1947ء کو پاکستان کا بننا قرارداد لاہور کا نتیجہ تھا لیکن اس قرار داد میں دو قومی نظریے کو جس طرح جغرافیائی شکل دینے کا مطالبہ کیا گیا اس کی حقانیت اور قیادت کی دور اندیشی آج بھی دنیا سے داد پا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال 23مارچ کے موقع پر قوم کے لئے تاریخ کے ان پہلوئوں سے ازسرنو واقفیت ضروری ہوتی ہے جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسی دن مقدر ہو گیا تھا جس روز محمد بن قاسم نے دیبل فتح کیا اور ملتان تک آ گیا‘ مسلمان جنگجو‘ صوفیا کرام‘ فنکار اور سیاح ہندوستان میں آتے رہے۔ ان کے مثالی کردار اور صاف ستھرے طرز زندگی نے مقامی اقوام کو اسلام کی جانب متوجہ کیا۔ آج بھی کوئی تاریخ دان یہ نہیں کہے گا کہ ہندوستان میں اسلام مسلم فاتحین کے ڈر سے پھیلا بلکہ معلوم ہو گا کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ ‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ‘ بابا فریدالدین گنج شکرؒ اور حضرت بہائوالدین زکریاؒ ملتانی کی تبلیغ سے متاثر ہو کر کروڑوں غیر مسلم مسلمان ہوئے۔ ہندوستان میں مقامی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ افغانستان‘ ایران اور عرب و افریقہ سے وقتاً فوقتاً مسلمان قبائل آتے رہے۔ ان لوگوں نے مقامی مسلمان خاندانوں کے ساتھ مل کر ہندوستان میں مسلمانوں کی الگ شناخت کو مستحکم کیا۔ سلاطین دہلی اور مغل دور میں مسلمانوں کا ایک طبقہ اشرافیہ پیدا ہوا نواب‘ وزرائ‘ مصاحبین‘ درباری اور اعلیٰ منصب دار و جاگیر دار اس حکمران طبقے میں شامل تھے۔ ان لوگوں کی اکثریت کو مسلمانوں کی الگ شناخت سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اکبر بادشاہ نے جب دین الٰہی کا اعلان کیا تو اس کی مزاحمت عام مسلمانوں نے کی‘ شیخ احمد سرہندی مسلمان عوام کے ترجمان بنے۔ انگریز کا اقتدار کمزور ہونے لگا تو ہندو اقوام نے خود کو سیاسی لحاظ سے منظم کرنا شروع کر دیا۔1885ء میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سرسید احمد خان تھے جنہوں نے ناسمجھ مسلمانوں کی تہمتیں برداشت کیں مگر انہیں مشورہ دیا کہ وہ ہندوئوں کو مضبوط کرنے والی کسی چال کا حصہ نہ بنیں۔ بعد میں حالات نے ثابت کیا کہ سرسید نے جو کہا وہ درست تھا۔ سرسید احمد خان وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے مسلم قوم کے جداگانہ تشخص کی علمی و عملی بنیادیں رکھیں۔ یہ ان ہی کی علمی تحریک کے وابستگان تھے جنہوں نے بعدازاں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریز کی رخصت کا عمل پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نقصانات کے باعث تیز ہو گیا۔ اردو ہندی تنازع‘ تقسیم بنگال فیصلے کی منسوخی اور کانگرس کا تعصب سے لبریز طرز عمل مسلمانوں کو اس مقام پر لے آیا کہ 1930ء میں ڈاکٹر محمد اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے مسلمان اکثریت کے حامل علاقوں کو الگ ریاست بنانے کی تجویز پیش کی۔سرسید احمد خان اور پھر علامہ محمد اقبال کے تصورات نے برصغیر میں دنیا کے مختلف علاقوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو متحد کر دیا۔ اگلے دس سال میں قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے خود کو الگ قوم کی حیثیت سے منوایا۔ لاہور کے منٹو پارک میں 22سے 24مارچ 1940ء کو جاری رہنے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شیر بنگال مولوی اے کے فضل حق نے ایک قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کی تائید چودھری خلیق الزماں نے کی۔ قرار داد میں کہا گیا کہ:برصغیر کے مسلمانوں کے لئے کوئی آئینی منصوبہ اس وقت تک قابل قبول نہ ہو گا جب تک کہ وہ ان بنیادی اصولوں کے مطابق نہ ہو: جن ملحقہ جغرافیائی اکائیوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے انہیں الگ دستوری نظام کا حق دیا جائے۔ جیسا کہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقے۔ ان علاقوں کو خود مختار‘ آزاد اور بااختیار ریاستوں کی شکل دی جائے۔ اس قرارداد کے حق میں پنڈال میں بیٹھے تمام افراد نے پرجوش نعرے لگانے شروع کئے۔ شام تک یہ خبر مسلمانوں کی حتمی سیاسی منزل کی شکل میں پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی‘ اگلی صبح ہندو اخبارات نے اسے قرارداد پاکستان لکھا۔ اس قرارداد نے کانگرس اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا۔ خاص و عام نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جو سفر شروع کیا وہ تحریک پاکستان کے نام سے محفوظ ہے۔1940ء سے 1947ء تک کا زمانہ مسلمانوں کی سوچ میں تبدیلی کا عہد ہے۔ دو قومی نظریہ کو سچ منوانا‘ مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا قیام اور پھر اس آزاد ریاست کی بقا کے لئے جدوجہد مرحلہ وار ہمیں نئے اہداف سے روشناس کراتی آ رہی ہے‘ پاکستان کے لوگوں کو بھارت میں رہ جانے والے بھائیوں کی حالت زار دیکھ کر دکھ ہوتا ہے مگر وہ قائد اعظم کی دور اندیشی کے پہلے سے بڑھ کر قائل ہو چکے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں‘ کئی جگہ مہلک امراض نے تباہی مچا رکھی ہے‘ بہت سی ریاستیں داخلی انتشار کے باعث بکھرنے کو ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی صدیوں کے تشکیلی مرحلے کے بعد ایک طاقتور قوم بن چکے ہیں۔اہل پاکستان کو نسلی‘ لسانی اور مسلکی اختلافات کا شکار بنانے والی قوتیں دراصل وہی طاقتیں ہیں جو 23مارچ 1940ء کی قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد شکست سے دوچار ہوئیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔23مارچ یوم پاکستان ہے۔ آج کا پاکستان دہشت گردی کے خلاف بیس برس تک جنگ لڑنے والی بہادر پاکستانی قوم کا ملک ہے۔ اس قوم نے گروہی اختلافات کو ختم کر کے خود کو نئے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔23مارچ کا دن ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی خود مختاری‘ آزادی اور الگ شناخت کو پاکستان کی صورت میں برقرار رکھنا ہے۔