کسی جمہوری نظریہ میں یہ ہر گز ممنوع نہیں کہ کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر کی اولاد سیاست میں آئے یا اپنے والد یا والدہ کے سیاسی و مذہبی افکار کی ترویج و اشاعت میں نہ شامل ہو۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنس کی زبان میں موروثیت جینز کی منتقلی کے نظام کا نام ہے۔ جینز کے ذریعے والدین سے بہت ساری عادات اور اطوار اور جبلی صلاحیتیں اولاد میں منتقل ہوتی ہیں مزید برآں یہ بھی بالکل بجا ہے کہ بندہ گھر کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے اور انسان کی نشو و نما میں اور اس کے اخلاق و کردار و مزاج و ترجیحات میں گھر کے ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ یہ بات بھی بجا طور پر کہی جاتی ہے کہ عمومًا نعت خواں کا بیٹا اچھا نعت خواں، ڈاکٹر کی اولاد ڈاکٹر ، موسیقار کا بیٹا موسیقار اور فوجیوں کے بچے فوجی عمومًا زیادہ بنتے ہیں۔ یہ صورت حال تقریبا ہر پروفیشن میں آج ہی نہیں تاریخ کے ہر دور میں کم و بیش ایسے ہی نظر آتی ہے۔ لیکن ان مثالوں سے دلیل پکڑنے والے شاید یہ بات دانستًا نظر انداز کر جاتے ہیں کہ قیادت و سیادت کوئی پروفیشن نہیں۔ غالبا وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ کسی آرمی جنرل کا بیٹا اگر فوج میں جاتا ہے تو وہ سفر سیکنڈ لیفٹنٹ سے ہی شروع کرتا ہے براہ راست جنرل بنا تو دور کی بات وہ براہ راست میجر یا کیپٹن بھی نہیں بن سکتا۔ کسی ڈاکٹر کا بیٹا یا بیٹی ایم بی بی ایس تو شاید باقی بچوں کی نسبت آسانی سے کر لیے لیکن ان کو بھی سفر کا آغاز ہائوس جاب سے کرنا پڑتا ہے کبھی براہ راست سرجری نہیں شروع کر دیتے۔ علی ہذالقیاس یہ اصول ہر جگہ ایسے ہی نظر آئے گا۔ صرف اگر کوئی استثنا ہے تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کی منتقلی کے ہمارے ہاں مروجہ نظام میں ہے جہاں لیڈر کی اولاد جماعت میں باقی ممبران و اراکین کے لئے موجود تمام تدریجی مراحل سے ماورا براہ راست منصب قیادت پر فائز ہوتی جیسے بلاول پیپلز پارٹی پر اور مریم نواز ن لیگ پر براجمان ہیں۔ کوئی عقل کا پیدل ہی یہ کہے گا کہ سیاستدان کی اولاد کے لئے ناجائز ہے کہ سیاست میں آئے یا مذہبی رہنما کی اولاد کے لئے غیر مناسب ہے کہ وہ اس کے افکار و نظریات کے فروغ کے لئے قائم جماعت یا نظم میں کوئی ذمہ داری لے۔ اعتراض تب بنتا ہے جب اسی سیاسی و مذہبی جماعت میں دہائیوں تک جدوجہد کرنے والے اعلی صلاحیتوں اور تجربہ کے حامل لیڈرز کے اوپر ان خاندانی شہزادوں یا شہزادیوں کو مسلط کر کے ملک میں جمہوریت کے تحفظ کے نعرے بڑی ڈھٹائی سے لگائے جاتے ہیں اور بغیر کسی انتخابی عمل سے گزرے منصب قیادت پر فائز ہو کر ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلائی جاتی ہے۔ اس پر متسزاد یہ کے ان موروثی جان نشینان کے سامنے ہاتھ باندھ کر اور سر جھکا کر کھڑا ہونے کی غلامانہ صلاحیت سے عاری کسی سینئر ترین لیڈر کی ان جماعتوں میں کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ شہادت ، کربلا میں امام حسین اور خانوادہ امام کی عظیم قربانی سے لیکر امام حسن عسکری تک ہر امام کے حالات زندگی کسی معتبر کتاب میں پڑھ کر ایک غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کی تکلیف کر لی جائے کہ ان ائمہ کی زندگی اور نعم و عشرت کے ماحول میں پلے دنیا کے مختلف ممالک میں اربوں کی جائیدادوں کے مالک پاکستانی اشرافیہ کے جان نشین شہزادوں اور شہزادیوں میں کیا کوئی بات یکساں بھی ہے ؟ قیادت کی اولاد میں منتقلی کے لئے kingdoms اور دنیاوی بادشاہتوں کی مثال لانے سے قبل شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بھی دیکھ لینا چاہیے کہ سگے چچا متعدد چچا زاد اصحاب کبار اور امام الاولیاء باب المدنیہ العلم زوج بتول کے ہوتے ہوئے اپنا کوئی تنظیمی انتظامی ریاستی اور سیاسی جان نشین مقرر نہیں فرماتے۔ آپ کے بعد وہ لاکھوں اصحاب رسول جن کے برابر قیامت تک کا کوئی غیر صحابی اور غوث بھی نہیں پہنچ سکتا خلافت کے لئے ایک غیر ہاشمی ابوبکر بن قحافہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر اپنے جلیل القدر صحابی بیٹوں کے ہوتے ہوئے خلافت کے لئے عمر ابن الخطاب کو نامزد کرتے ہیں اور جماعت صحابہ بشمول جملہ بنو ہاشم کے متفقہ طور پر عمر الفاروق کی بیعت کرتی ہے۔ ان کے بعد عبداللہ ابن عمر جیسے اعلی صلاحیتوں کے حامل صحابی رسول بیٹے کے ہوتے ہوئے انتخاب عثمان ابن عفان کا ہوتا ہے۔ پھر حضرت علی بھی شہادت کے وقت انتہائی مشکل اور پر فتن حالات میں بھی اپنے اصحاب کے اصرار کے باوجود امام حسن کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرماتے بلکہ معاملہ مشاورت کے سپرد کر دیتے ہیں۔رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین موجودہ دور میں ملکہ برطانیہ کے خاندان کی عزت و تکریم کی مثال دینے والے کاش برطانیہ کے جمہوری و سیاسی نظام کا کچھ مطالعہ بھی کرلیں کہ وہاں ملکہ یا بادشاہ کے پاس کوئی آئینی و ریاستی اختیار نہیں اور جو ہیں ان کا بھی صدیوں سے استعمال نہیں کیا گیا۔تمام تر اختیار آئینی اداروں کے پاس ہیں جن کی تشکیل ملکہ کی خواہش یا مرضی نہیں بلکہ آئینی روایات و قانون کے مطابق ہوتی ہے۔ملکہ ملک کے وزیر اعظم کسی وزیر مشیر کا تقرر تو دور کی بات حکومتی یا ریاستی اداروں میں ایک کلرک کی بھرتی کا بھی اختیار نہیں رکھتی۔ آپ کی ممدوح موروثی جماعتی قیادتوں کے مزاجوں کی ہٹ دھرمی ، طرز عمل کی آمریت اور رویوں کی شہنشاہی کے سامنے تو ملکہ برطانیہ کے شہزادے اور شہزادیاں بھی بونے بونیاں لگتے ہیں۔ اگر آپ کو سیاسی جماعتوں میں موجود یہ موروثی قیادت کا نظام اتنا ہی محبوب ہے تو آپ کو مبارک ،لیکن خدارا حقائق کو توڑ مڑوڑ کر الفاظ و مترادافات کی بھول بھلیوں کے ذریعے جماعتوں میں قیادت کی منتقلی کے موروثی نظام کو عین تقاضائے اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرکے اسلام کے آفاقی ہمہ گیر اور قیامت تک کے لئے جامع ضابطہ حیات کے تصورات کو پراگندہ تو نہ کریں۔ اسلام میں قیادت و سیادت کی اولاد میں منتقلی یقینا حرام و ناجائز نہیں لیکن بہرحال یہ نہ نبی اکرمﷺ کی سنت ہے نہ ہی خلفائے راشدین آئمہ فقہہ اور اولیاء سلف میں سے کسی بھی طبقے کا معمول رہا۔ اس کی کسی نے تلقین کی ہے نہ ہی اس کو کہیں پسندیدہ عمل قرار دیا گیا۔ اور جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو اس طرز عمل کی جمہوری نظام و روایات میں سرے سے کوئی گنجائش ہی موجود نہیں۔ باقی اگر کوئی موروثی قیادتوں سے ہی جمہوری نظام کے کے قیام کی امید رکھتے ہوئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہنے پر ہی راضی ہو تو اس کو یقینا یہ بھی لکھا نظر آیا ہو گا کہ نصیب اپنا اپنا۔۔ پسند اپنی اپنی۔۔
ٹرک کی بتی
بدھ 24 فروری 2021ء
کسی جمہوری نظریہ میں یہ ہر گز ممنوع نہیں کہ کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر کی اولاد سیاست میں آئے یا اپنے والد یا والدہ کے سیاسی و مذہبی افکار کی ترویج و اشاعت میں نہ شامل ہو۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنس کی زبان میں موروثیت جینز کی منتقلی کے نظام کا نام ہے۔ جینز کے ذریعے والدین سے بہت ساری عادات اور اطوار اور جبلی صلاحیتیں اولاد میں منتقل ہوتی ہیں مزید برآں یہ بھی بالکل بجا ہے کہ بندہ گھر کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے اور انسان کی نشو و نما میں اور اس کے اخلاق و کردار و مزاج و ترجیحات میں گھر کے ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ یہ بات بھی بجا طور پر کہی جاتی ہے کہ عمومًا نعت خواں کا بیٹا اچھا نعت خواں، ڈاکٹر کی اولاد ڈاکٹر ، موسیقار کا بیٹا موسیقار اور فوجیوں کے بچے فوجی عمومًا زیادہ بنتے ہیں۔ یہ صورت حال تقریبا ہر پروفیشن میں آج ہی نہیں تاریخ کے ہر دور میں کم و بیش ایسے ہی نظر آتی ہے۔ لیکن ان مثالوں سے دلیل پکڑنے والے شاید یہ بات دانستًا نظر انداز کر جاتے ہیں کہ قیادت و سیادت کوئی پروفیشن نہیں۔ غالبا وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ کسی آرمی جنرل کا بیٹا اگر فوج میں جاتا ہے تو وہ سفر سیکنڈ لیفٹنٹ سے ہی شروع کرتا ہے براہ راست جنرل بنا تو دور کی بات وہ براہ راست میجر یا کیپٹن بھی نہیں بن سکتا۔ کسی ڈاکٹر کا بیٹا یا بیٹی ایم بی بی ایس تو شاید باقی بچوں کی نسبت آسانی سے کر لیے لیکن ان کو بھی سفر کا آغاز ہائوس جاب سے کرنا پڑتا ہے کبھی براہ راست سرجری نہیں شروع کر دیتے۔ علی ہذالقیاس یہ اصول ہر جگہ ایسے ہی نظر آئے گا۔ صرف اگر کوئی استثنا ہے تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کی منتقلی کے ہمارے ہاں مروجہ نظام میں ہے جہاں لیڈر کی اولاد جماعت میں باقی ممبران و اراکین کے لئے موجود تمام تدریجی مراحل سے ماورا براہ راست منصب قیادت پر فائز ہوتی جیسے بلاول پیپلز پارٹی پر اور مریم نواز ن لیگ پر براجمان ہیں۔ کوئی عقل کا پیدل ہی یہ کہے گا کہ سیاستدان کی اولاد کے لئے ناجائز ہے کہ سیاست میں آئے یا مذہبی رہنما کی اولاد کے لئے غیر مناسب ہے کہ وہ اس کے افکار و نظریات کے فروغ کے لئے قائم جماعت یا نظم میں کوئی ذمہ داری لے۔ اعتراض تب بنتا ہے جب اسی سیاسی و مذہبی جماعت میں دہائیوں تک جدوجہد کرنے والے اعلی صلاحیتوں اور تجربہ کے حامل لیڈرز کے اوپر ان خاندانی شہزادوں یا شہزادیوں کو مسلط کر کے ملک میں جمہوریت کے تحفظ کے نعرے بڑی ڈھٹائی سے لگائے جاتے ہیں اور بغیر کسی انتخابی عمل سے گزرے منصب قیادت پر فائز ہو کر ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلائی جاتی ہے۔ اس پر متسزاد یہ کے ان موروثی جان نشینان کے سامنے ہاتھ باندھ کر اور سر جھکا کر کھڑا ہونے کی غلامانہ صلاحیت سے عاری کسی سینئر ترین لیڈر کی ان جماعتوں میں کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ شہادت ، کربلا میں امام حسین اور خانوادہ امام کی عظیم قربانی سے لیکر امام حسن عسکری تک ہر امام کے حالات زندگی کسی معتبر کتاب میں پڑھ کر ایک غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کی تکلیف کر لی جائے کہ ان ائمہ کی زندگی اور نعم و عشرت کے ماحول میں پلے دنیا کے مختلف ممالک میں اربوں کی جائیدادوں کے مالک پاکستانی اشرافیہ کے جان نشین شہزادوں اور شہزادیوں میں کیا کوئی بات یکساں بھی ہے ؟ قیادت کی اولاد میں منتقلی کے لئے kingdoms اور دنیاوی بادشاہتوں کی مثال لانے سے قبل شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بھی دیکھ لینا چاہیے کہ سگے چچا متعدد چچا زاد اصحاب کبار اور امام الاولیاء باب المدنیہ العلم زوج بتول کے ہوتے ہوئے اپنا کوئی تنظیمی انتظامی ریاستی اور سیاسی جان نشین مقرر نہیں فرماتے۔ آپ کے بعد وہ لاکھوں اصحاب رسول جن کے برابر قیامت تک کا کوئی غیر صحابی اور غوث بھی نہیں پہنچ سکتا خلافت کے لئے ایک غیر ہاشمی ابوبکر بن قحافہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر اپنے جلیل القدر صحابی بیٹوں کے ہوتے ہوئے خلافت کے لئے عمر ابن الخطاب کو نامزد کرتے ہیں اور جماعت صحابہ بشمول جملہ بنو ہاشم کے متفقہ طور پر عمر الفاروق کی بیعت کرتی ہے۔ ان کے بعد عبداللہ ابن عمر جیسے اعلی صلاحیتوں کے حامل صحابی رسول بیٹے کے ہوتے ہوئے انتخاب عثمان ابن عفان کا ہوتا ہے۔ پھر حضرت علی بھی شہادت کے وقت انتہائی مشکل اور پر فتن حالات میں بھی اپنے اصحاب کے اصرار کے باوجود امام حسن کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرماتے بلکہ معاملہ مشاورت کے سپرد کر دیتے ہیں۔رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین موجودہ دور میں ملکہ برطانیہ کے خاندان کی عزت و تکریم کی مثال دینے والے کاش برطانیہ کے جمہوری و سیاسی نظام کا کچھ مطالعہ بھی کرلیں کہ وہاں ملکہ یا بادشاہ کے پاس کوئی آئینی و ریاستی اختیار نہیں اور جو ہیں ان کا بھی صدیوں سے استعمال نہیں کیا گیا۔تمام تر اختیار آئینی اداروں کے پاس ہیں جن کی تشکیل ملکہ کی خواہش یا مرضی نہیں بلکہ آئینی روایات و قانون کے مطابق ہوتی ہے۔ملکہ ملک کے وزیر اعظم کسی وزیر مشیر کا تقرر تو دور کی بات حکومتی یا ریاستی اداروں میں ایک کلرک کی بھرتی کا بھی اختیار نہیں رکھتی۔ آپ کی ممدوح موروثی جماعتی قیادتوں کے مزاجوں کی ہٹ دھرمی ، طرز عمل کی آمریت اور رویوں کی شہنشاہی کے سامنے تو ملکہ برطانیہ کے شہزادے اور شہزادیاں بھی بونے بونیاں لگتے ہیں۔ اگر آپ کو سیاسی جماعتوں میں موجود یہ موروثی قیادت کا نظام اتنا ہی محبوب ہے تو آپ کو مبارک ،لیکن خدارا حقائق کو توڑ مڑوڑ کر الفاظ و مترادافات کی بھول بھلیوں کے ذریعے جماعتوں میں قیادت کی منتقلی کے موروثی نظام کو عین تقاضائے اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرکے اسلام کے آفاقی ہمہ گیر اور قیامت تک کے لئے جامع ضابطہ حیات کے تصورات کو پراگندہ تو نہ کریں۔ اسلام میں قیادت و سیادت کی اولاد میں منتقلی یقینا حرام و ناجائز نہیں لیکن بہرحال یہ نہ نبی اکرمﷺ کی سنت ہے نہ ہی خلفائے راشدین آئمہ فقہہ اور اولیاء سلف میں سے کسی بھی طبقے کا معمول رہا۔ اس کی کسی نے تلقین کی ہے نہ ہی اس کو کہیں پسندیدہ عمل قرار دیا گیا۔ اور جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو اس طرز عمل کی جمہوری نظام و روایات میں سرے سے کوئی گنجائش ہی موجود نہیں۔ باقی اگر کوئی موروثی قیادتوں سے ہی جمہوری نظام کے کے قیام کی امید رکھتے ہوئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہنے پر ہی راضی ہو تو اس کو یقینا یہ بھی لکھا نظر آیا ہو گا کہ نصیب اپنا اپنا۔۔ پسند اپنی اپنی۔۔
آج کے کالم
یہ خبر روزنامہ ٩٢نیوز میں بدھ 24 فروری 2021ء کو شایع کی گی
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں