مکرمی !مادری زبان ہمارا قیمتی اثاثہ ہے۔یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ راہ ہموار کرنے کا ذریعہ ہے۔ا نگریزی زبان ایک بین الاقوامی زبان ہے۔جو کہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔ چلیں فرض کر لیجیے ک کسی کو انگریزی نہیں آتی تو کیا آپ اس شخص کے اوپر ناکام شخص ہونے کا ٹھپہ لگا دیں گے؟ ہرگز نہیں، انگریزی نہ بول سکنے والا ضروری نہیں کہ کوئی ناکام شخص ہو بلکہ کئی ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنی قومی زبان کو ہر زبان پہ ترجیح دیتے ہیں۔فرانس کے رہنے والے آج بھی انگریزی زبان بولنے والے کو اپنی ہی زبان میں جواب دیتے ہیں۔وہاں رہنے والوں کو خصوصاً یہ زبان سیکھنی پڑتی ہے۔اپنی مادری زبان میں ترقی کی بات کی جائے تو یہ اہل وطن کو مذاق لگتا ہے مگر کوئی شک نہیں کہ اپنی زبان میں ترقی ممکن ہے-بالکل اسی طرح جیسے انگریزوں نے مسلمانوں کے مشہور سائنسدان، فلسفیوں اور مفکرین کی کتب کا انگریزی میں ترجمہ کر کے ان کا تمام علم اپنی زبان میں منتقل کیا بلکہ اسی طرح ہم بھی انگریزی اور عربی کی کتب کا اپنی زبان میں ترجمہ کر کے یہ علم اپنے ہم وطنوں تک منتقل کر سکتے ہیں۔شاید یہ ہماری غفلت ہے کہ روزمرہ زبان میں انگریزی الفاظ کی اس قدر ملاوٹ ہے کہ ہم باورچی خانے کو کچن، بیت الخلا کو باتھ روم، کمرے کو روم، ڈاک خانے کو پوسٹ آفس کہتے ہیں-استاد ٹیچر ہو گیا تو طالب علم بھی اسٹوڈنٹ کہلانے لگے۔صدر پریذیڈنٹ بن گیا تو وزیراعظم پرائم منسٹر کہلانے لگے۔ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں شاور اور کموڈ کو اردو میں کہتے کیا ہیں تو بھلا ہمارے بچوں کو ان چھوٹے چھوٹے الفاظ کی اردو بھی کیسے پتہ چلے۔ (سارہ عمر ، الریاض سعودی عرب)